Pages

Wednesday 1 November 2017

Al Risala | November 2017 (الرسالہ،نومبر)

4

-سفرنامہ کلچر

5

- ساری زمین مسجد

6

- امن کا معاملہ

7

- اللہ کی معرفت

8

- اللہ کی توفیق

9

- دوڑو جنت کی طرف

10

- داعی کی اسپرٹ

11

- رُجز سے اعراض

12

- سجدہ دورِ آخر میں

13

- دل کی بیماری

14

- دین ایک ، شریعت مختلف

15

- اکڑ کی چال

16

- مومن کی صفت

17

- شتم رسول

18

- عقل کا فقدان

19

- درجات کی بلندی

20

- اختلاف کے باوجود اعتراف

21

- دعوت اور ظلم

22

- روشن ہدایت

24

- حقیقی اہمیت

25

- سماجی آداب

26

- دین میں عقل کا استعمال

28

- مدح، تنقید

31

- القاب کلچر

32

- الأئمۃ المضلون

34

- نصیحت پذیری

35

- کامیاب زندگی

36

- زوال کیا ہے

37

- عورت کا درجہ

38

- اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

39

- بزدلی یا حکمت

40

- عمل معیار ہے

41

- بیمار ی سے تطہیر

42

- شدت پسندی نہیں

44

- تشدد کا سبب عدم قناعت

45

- سگریٹ نوشی کی عادت

46

- صلاحیت کا اندازہ

47

- خبرنامہ اسلامی مرکز


سفرنامہ کلچر

مسلمانوں کے جرائد میں اکثر سفرنامے کا کالم ہوتا ہے۔ اس کالم میں کوئی شخص اپنے سفر کے واقعات کو بیان کرتا ہے۔ سفرنامے کا یہ کالم قارئین کے لیے ایک دلچسپی کا صفحہ ہوتا ہے۔ وہ شوق کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات جریدے کے اُس صفحے کو سب سے پہلے پڑھتے ہیں، جس میں کوئی سفرنامہ شائع ہوا ہو۔
مگر عجیب بات ہے کہ یہ سفرنامے تقریبا ًسب کے سب قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوتے ہیں:وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُونَ (12:105)۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان کا گزر ہوتا ہے اور وہ ان پر دھیان نہیں کرتے۔
آیات سے اعراض کا مطلب یہ ہے کہ سفر کے دوران مسافر کو مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات پیش آتے ہیں۔ ان مشاہدات اور تجربات میں کوئی نہ کوئی سبق کا پہلو ہوتا ہے۔ اس میں کوئی نہ کوئی نشانی ہوتی ہے، جو خدا اور آخرت کو یاد دلاتی ہے۔ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو مسافر کے اندر دینی تڑپ جگادے۔ مگر یہ سفرنامے اس قسم کے آئٹم سے تقریباً خالی ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں قرآن کی ایک اور متعلق آیت یہ ہے:قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّہَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ(29:20)۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا، پھر وہ اس کو دوبارہ اٹھائے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ’’چلو پھرو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین میں تمھارا چلنا پھرنا ہو تو تم سفر کے دوران فطرت کےمناظر سے سبق لو۔تم تاریخ کے واقعات سے عبرت حاصل کرو۔ سفر مومن کے لیے اس کی دینی زندگی کا امتداد (extension) ہے۔ حقیقی سفرنامہ وہ ہے جو قاری کے لیے سبق نامہ بن جائے، نہ کہ صرف آمد ورفت نامہ۔
واپس اوپر جائیں

ساری زمین مسجد

مسجد کے حوالے سے ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:جعلت الأرض کلہا لی ولأمتی مسجدا وطہورا (مسند احمد، حدیث نمبر22137)۔ یعنی پوری زمین میرے لیے اور میری امت کے لیے مسجد اور پاکی بنادی گئی ۔
اس حدیث میں مسجد کا لفظ علامتی معنی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد تاریخ میں ایک ایسا دور آنے والا ہے جو کہ کامل مذہبی آزادی کا دور ہوگا۔ اہل ایمان آزاد ہوں گے کہ وہ زمین کے جس حصے میں چاہیں دینی سرگرمی جاری کرسکیں ، خواہ وہ عبادت کی سرگرمی ہو یا دعوت کی سرگرمی۔
موجودہ دور میں پیغمبر اسلام کی یہ پیشین گوئی پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔ آج کی دنیا میں اہل ایمان ہر دینی سرگرمی کے لیے آزاد ہیں۔ اب صرف ایک سرگرمی ممنوع ہے، اور وہ ہے مذہب کے نام پر تشدد۔تشدد کی بڑی صورت جنگ ہے، اور تشدد کی چھوٹی صورت یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے مسئلہ (problem) بن جائیں۔
ساری زمین مسجد ہوجائے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری زمین اور زمین پر بسنے والے تمام لوگ عملاً دین کے موافق (supporter) بن جائیں گے۔ دنیا کی تمام قومیں یا تو دین کی مؤید (supporter) بن جائیں گی، یا کم ازکم ناطرف دار (indifferent)۔ اکیسویں صدی عملاًاسی قسم کی صدی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو لوگ نفرت اور تشدد میں جی رہے ہیں، وہ اس بات کا اعلان کرر ہے ہیں کہ وہ ہر اعتبار سے بے خبر ہیں، حالاتِ زمانہ سے بھی اور خود اپنے پیغمبر کی بتائی ہوئی باتوں سے بھی۔
حدیث میں مسجد کے علاوہ دوسرا لفظ طَہور (پاکی) آیا ہے۔ پاکی کا ایک مطلب یہ ہے کہ دنیا پوری کی پوری بطور اصول پر امن دنیا (peaceful world) بن جائے گی۔ اس وقت امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہوگی، اور تشدد کی حیثیت صرف استثنا ء(exception) کی۔
واپس اوپر جائیں

امن کا معاملہ

دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر چیز آپ کو پوٹنشل (potential) کی صورت میں ملتی ہے۔ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ اس پوٹنشل کو دریافت کریں، اور پوٹنشل کو ذاتی عمل سے اپنے لیے اکچول (actual)بنائیں۔ مثلا درخت کا پھل آپ کو خود سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ آپ کویہ کرنا پڑتا ہے کہ زرخیر زمین (soil) میں ایک پودا لگائیں۔ اس کی نگہداشت کرتے ہوئےاس کو اگانا شروع کریں۔ اس طرح وہ وقت آتا ہے، جب کہ درخت ایک مکمل درخت بن جائے، اور اپنا پھل آپ کو دینا شروع کرے۔
یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ آج ہم ایج آف پیس میں جی رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن ایک زندہ امکان کے طور پر ہر جگہ موجود ہوچکا ہے۔اب آپ کا کام یہ ہے کہ امن کو اسپرٹ آف دی ایج کی حیثیت سے دریافت کریں، اور پھر اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کر کے کامیابی حاصل کریں۔ کامیابی کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے، آئڈیالوجی اور میتھڈ۔ قدیم زمانے میں انسان کے پاس اگر آئڈیالوجی موجود ہو تب بھی کامیابی کا حصول سخت مشکل ہوتا تھا۔
اس کا سبب یہ تھا کہ قدیم زمانے میں صرف پرتشدد طریقہ کار (violent method) ہی قابل حصول تھا۔ پر امن طریقہ کار قدیم زمانے میں قابل عمل ہی نہ تھا۔ موجودہ زمانے میں امن ہر انسان کا ایک حق (right) بن چکا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے کسی کو تشدد کا جواز (justification) فراہم نہ کرے تو یقینی طور پر وہ تشدد سے محفوظ رہ سکتا ہے۔آدمی صرف پرامن طریقہ کار کے ذریعہ ہی اپنے مقصد کو پوری طرح حاصل کرسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ آدمی ’’آبیل مجھے مار‘‘کی غلطی نہ کرے۔ اگر انسان ایسا کرسکے تو بلاشبہ وہ امن کو اپنے لیے یقینی بناسکتا ہے۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہ آدمی اگر اپنے آپ کو اشتعال انگیزی (provocation) سے بچائےتو یقینی طور پر وہ دوسروں کے ظلم سے محفوظ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی معرفت

اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی کے ساتھ خالق نے یہ کیا کہ انسان کے جسم میں ہر سیل (cell) کے اندر اپنا شعور پیوست کردیا۔ سائنسی دریافت نے بتایا ہے کہ انسان کے جسم میں کئی ٹریلین (37.2 trillion) سیل موجود ہیں۔ بالقوۃ طور پر ہر سیل کے اندر خالق کی معرفت موجود ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو اللہ کی معرفت حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر بے شمار سطح پر اللہ کا شعور جاگ اٹھے۔ انسان کے اندر معرفت رب کی ایک کائنات وجود میں آجائے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے۔ سیل کی تخلیق کو لے کر سوچا جائے تو معرفت حاصل کرنے کا مطلب ہے—  انسانی شخصیت کے اندر موجود امکان کو واقعہ بنانا۔ یہ معرفت پوٹنشیل (potential) کے طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ انسان کا کام یہ ہے کہ تدبر اور غور و فکر کے ذریعے وہ اس پوٹنشیل کو ایکچول (actual) بنائے۔ وہ اپنے بالقوۃ عارف ہونے کو دریافت کرے، اور فکری جدوجہد کے ذریعہ اس بالقوۃ کو بالفعل بنا لے۔
اللہ کی معرفت، خالق کائنات کی معرفت ہے۔ خالق کائنات کی معرفت سارے علوم کا خزانہ ہے۔ جس کو خالق کی معرفت حاصل ہوگئی، اس کو تمام چیزوں کی معرفت حاصل ہوگئی۔ جس کو خالق کی معرفت حاصل نہیں ہوئی، وہ علوم کے سرچشمہ سے بے بہرہ رہے گا۔
ایک عالم نے مدارس کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: علوم کے سرے پکڑیے۔ یہ ایک مبہم بات ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ خالق کی معرفت حاصل کیجیے، اور پھر آپ تمام علوم کے عارف بن جائیں گے۔ اس کے بعد تمام علوم کے سرے آپ کی پکڑ میں آجائیں گے۔ آپ کو وہ فرقان مل جائے گا، جو آپ کے اندر صحیح اور غلط کی تمیز پیدا کردے گا۔اسی حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی توفیق

اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو توفیق اِلٰہی کہا جاتا ہے۔ یعنی انسان اس دنیا میں جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو وہ اللہ کی توفیق سے کرتا ہے۔ یعنی اللہ جب کسی انسان کے اندر استعداد دیکھتا ہے تو وہ اس کو توفیق عطا کرتا ہے۔ پھر وہ اللہ کی توفیق سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ اگر اقلیت میں ہوں تب بھی وہ اپنی خصوصی منصوبہ بندی سے کامیاب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے حالات ان کے ذہن کے بند دروازے کھولتے ہیں۔ وہ اپنے غیر معمولی حالات میں بھی ایسی بات دریافت کرلیتے ہیں جو لوگ عام حالات میں دریافت نہیں کرپاتے۔
انسان کو اس دنیا میں کامل آزادی ملی ہے۔ وہ جس طرح چاہے عمل کرے، جس طرح چاہے نہ کرے۔ لیکن جس دنیا میں انسان کو عمل کرنا ہے، وہ دنیا اللہ کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ انسان کے باہر کی پوری دنیا کامل طور پر اللہ کی تخلیق ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان جب کچھ کرنا چاہے تو خارجی دنیا اس کے ساتھ مساعدت(support) کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان اگرچہ اپنے عمل کے لیے آزاد ہے، لیکن وہ کوئی عمل اس وقت کرپاتا ہے، جب کہ اللہ کا نظام اس کے ساتھ مساعدت کرے۔ اسی لیے انسان کو ہمیشہ اللہ سے مدد کی دعا کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس دنیا میں وہ کوئی کام اسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ اس کو اللہ کی مدد ملتی رہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو تمثیل کی زبان میں حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:إن قلوب بنی آدم کلہا بین إصبعین من أصابع الرحمن، کقلب واحد، یصرفہ حیث یشاء۔ ثم قال :اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا على طاعتک (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2654)۔ یعنی تمام اولاد آدم کا دل خدائےرحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلی کے درمیان ہے، ایک دل کی طرح، وہ جیسے چاہتا ہے اس میںتصرف کرتا ہے۔ پھرآپ نےدعا کی: اے دلوں میں تصرف کرنے والے، ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر ۔اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ سے دعا کرتا رہے۔
واپس اوپر جائیں

دوڑو جنت کی طرف

کسی انسان کو اگر سچائی کی معرفت ہو جائے، تو وہ بہت زیادہ اس بات کا طالب بن جائے گاکہ اس کا خالق اس سے راضی ہوجائے، اور وہ اس کو ابدی جنت میں داخل کرے۔ اس حقیقت کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (3:133)۔ یعنی اور دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے۔
قرآن کی اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ بطور نتیجہ ہر اس انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جو سچائی کا متلاشی ہو۔ پھر وہ اللہ رب العالمین کو دریافت (discovery)کے درجے میں پائے۔ جو اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God) کی دریافت کے نتیجے میں یہ جان لے کہ اس تخلیقی منصوبے کے مطابق انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دنیا میں جنتی شخصیت کو بنائے، اور موت کے بعد آنے والی دنیا میں ابدی جنت میں داخل کیا جائے۔
اللہ کو دریافت کرنا(discovery)در اصل قادر مطلق کے مقابلے میں عاجز مطلق کی دریافت ہے۔ کوئی آدمی اپنے اور اللہ کے مقابلے میں اس نسبت کو دریافت کرے، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس بات کا خواہش مند بن جائے گا کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے۔ وہ کسی حال میں اس کو اپنی رحمت سے محروم نہ کرے۔ اسی کا نام مغفرت ہے۔ اسی طرح جس شخص کو جنت کی دریافت ہوجائے ، وہ دل و جان سے اس کا حریص بن جائے گا کہ اس کا خالق اس کو ابدی جنت میں داخل کرے۔ اللہ کسی حال میں اس کو جنت سے محروم نہ کرے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی آخری حد تک جنت کا حریص بن جائے ۔ وہ کسی حال میں جنت کی یاد سے غفلت میں مبتلا نہ ہو۔ وہ جنت کو ہر حال میں اپنا آخری مقصود بنا لے۔
واپس اوپر جائیں

داعی کی اسپرٹ

سورہ الانعام ایک مکی سورہ ہے۔ مکی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت مکہ کے لوگ مشرکانہ مذہب پر تھے، اور پیغمبر اسلام کا مذہب توحید پر مبنی تھا۔ اس بنا پر وہ لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔ ان حالات میں قرآن کی یہ آیت اتری:قُلْ أَغَیْرَ اللَّہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ (6:14)۔ یعنی کہو، کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو مددگار بناؤں جو کہ وجود میں لانے والا ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا۔ کہو مجھ کو حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں۔
قرآن کی یہ آیت مین آف مشن (man of mission) کی اسپرٹ کو بتارہی ہے۔ مین آف مشن کی اسپرٹ ہوتی ہے، آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔ دوسرے لفظو ںمیں اس آیت کا مطلب تھا— کوئی توحید پر نہ چلے تو میں اس پر چلوں گا، کوئی توحید کو نہ اپنائے تو میں اس کو اپناؤں گا، کوئی توحید پرست نہ بنے تو میں اکیلا توحید پرست بنوں گا، کوئی اس مشن کے لیے نہ اٹھے تو میں اس کے لیے اٹھوں گا۔
داعی اس انسان کا نام ہے جو نتیجہ کو نہ دیکھے، بلکہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو دیکھے۔ جو اس اسپرٹ کے ساتھ کام کرے کہ دنیا میں میرا کوئی حق نہیں، یہاں میری صرف ذمہ داریاں ہی ذمہ داریاں ہیں۔ داعی اس انسان کا نام ہے جس کو اپنے عمل کا نتیجہ ملے تب بھی وہ سرگرم رہے، اور اگر اس کو اپنے عمل کا نتیجہ نہ ملے تب بھی اس کی سرگرمیاں اسی اسپرٹ کے ساتھ جاری رہیں۔
داعی کی کامیابی یہ ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔ داعی کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے دل سے انسان کی خیرخواہی کبھی ختم نہ ہو۔ داعی کاسفر دنیا سے شروع ہوتا ہے، اور وہ صرف وہاں ختم ہوتا ہے، جہاں سے آخرت کی ابدی دنیا شروع ہوجاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

رُجز سے اعراض

مکہ کے ابتدائی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حکم اترا کہ لوگوں کے درمیان انذار کا کام کرو۔ اس سلسلے میں ایک مزید حکم دیا گیا : وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رجز کو چھوڑ دو۔ رجز کو چھوڑ نے کا مطلب یہ ہے کہ رجز سے اعراض کرتے ہوئے اپنے مشن کا کام مثبت طور پر جاری رکھو۔
رجز کا لفظی مطلب ہے گندگی(dirt)۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رکاوٹ والی چیزوں سے نہ الجھتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو۔اتھارٹی (authority) سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے اپنا مشن ممکن حدود میں پر امن طور پر جاری رکھو، بے نتیجہ عمل سے دور رہتے ہوئے نتیجہ خیز سرگرمیوں میں اپنی کوشش صرف کرو۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ جب کسی مقصد کے لیے اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے رکاوٹوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔وہ اتھاریٹی سے ٹکراؤ کو اپنے عمل کا آغاز سمجھ لیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی طاقتیں ضائع ہوتی ہیں۔ نفرت اور تشدد بڑھتا ہے۔ منفی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں، لیکن مثبت سرگرمیوں کو فروغ پانے کا موقع نہیں ملتا۔ جو ملنے والی چیز ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی، البتہ جو چیز ملنے والی نہیں، اس پر ساری طاقت خرچ کردی جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ غیر حکیمانہ طریقہ ہے۔ لیکن پوری تاریخ میں لوگ اسی طریقے پر عمل کرتے رہے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ ہر صورت حال میں مواقع (opportunities) موجود رہتے ہیں۔ مواقع کو استعمال کرکے فوراً ہی نتیجہ خیز عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن غیر دانش مندانہ سوچ کی بنا پر لوگوں کا دھیان فوراً مسائل (problems) کی طرف چلاجاتا ہے۔ اس معاملے میں قرآن نے ایک ایسی رہنمائی دی جو سرتا سر دانش مندی پر قائم ہے۔ یعنی مسائل اور مواقع کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کرنا، مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مواقع کو استعمال کرنا:
ignore the problem, avail the opportunity
واپس اوپر جائیں

سجدہ دورِ آخر میں

آخری زمانے کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:لا تقوم الساعة حتى تکون السجدة الواحدة خیرا من الدنیا وما فیہا(موارد الظمآن، حدیث نمبر1888)۔یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک یہ حال نہ ہوجائے کہ ایک سجدہ دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتربن جائے۔
اس حدیث میں سجدہ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ حقیقی سجدہ کے معنی میں ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آخری زمانے میں مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوں گی، جب کہ وہ ہدایت سے خالی ہوں گی(شعب الایمان، حدیث نمبر 1763)۔اس لیے مذکورہ حدیث میں سجدہ لفظی معنی میں نہیں ہوسکتا، بلکہ یہاں سجدہ کا لفظ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہے۔
حقیقی سجدہ وہ ہے، جو سجدہ کی اسپرٹ سے بھراہوا ہو۔ اس میں آدمی اپنے آپ کو خدا کے قریب محسوس کرنے لگے۔ آخری زمانے میں لوگ اس قسم کے سجدہ سے محروم ہوجائیں گے۔ اس کا سبب یہ ہوگا کہ اس وقت لوگوں کا سب سے بڑا کنسرن سجدہ نہیں رہے گا، بلکہ مادی انٹرسٹ ان کا سب سے بڑا کنسرن بن جائے گا، وہ رسمی طور پر بظاہر سجدہ کریں گے، لیکن ان کا دل اللہ کے علاوہ کہیں اور اٹکا ہوا ہوگا۔ بظاہر زمین پر وہ اپنا سر رکھیں گے، لیکن ان کے دل میں نہ اللہ کی محبت ہوگی، اور نہ اللہ کا خوف ہوگا۔
یہ زمانہ عظیم فتنے کا زمانہ ہوگا۔ ایسی حالت میں سچا سجدہ صرف اس شخص کو حاصل ہوگا جو اپنی سوچ کے اعتبار سے اپنے آپ کو زمانے سے اوپر اٹھائے۔ جو بھلانے والی چیزوں سے الگ ہوکر اللہ کو یاد کرسکے۔ جو دجالی تزئینات کا پردہ پھاڑ کر اللہ کو دریافت کرے۔ جو اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کا سجدہ رسمی سجدہ نہ ہو، بلکہ وہ ایک عارفانہ سجدہ بن جائے۔ ایسے حالات میں جو شخص سچا سجدہ کرے، اس کا سجدہ بلاشبہ اس کے لیے سب سے بڑے خیر کا سبب بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دل کی بیماری

قرآن میں ایک نفسیاتی حقیقت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے: فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللَّہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (2:10)۔ یعنی ان کے دلوں میں روگ ہے تو اللہ نے ان کے روگ کو بڑھا دیا۔ اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔ اس آیت میں قلبی مرض سے مراد نفاق ہے۔ نفاق کوئی پراسرار چیز نہیں۔ وہ فطرت کا ایک ظاہرہ ہے، جو ہمیشہ اور ہر امت میں پیدا ہوتا ہے۔ نفاق کسی مخصوص قوم کی اجارہ داری نہیں۔
اصل یہ ہےکہ کسی امت کی پہلی نسل اخلاص پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن امت کی بعد کی نسلوں میں دھیرے دھیرے اخلاص کمزور یا ختم ہوجاتا ہے۔ اب امت کے لیے ان کا دین تاریخی بڑائی (historical glory) کی چیز بن جاتا ہے۔ وہ دین کو اپنے لیے فخر کا عنوان بنا لیتے ہیں۔ امت کے افراد کی یہ نفسیات اس میں مانع ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرے۔ وہ اپنی قلبی کمزوری کو خوبصورت الفاظ کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی حالت کا نام نفاق ہے۔
نفاق کا اصل مفہوم چھپانا ہے۔ اسی لیے سرنگ کو نفَق کہتے ہیں۔ یہ لفظ جنگلی چوہے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جو خطرہ کے وقت اپنے آپ کو بل میں چھپالیتا ہے۔ انسان کی نسبت سے جب یہ لفظ بولا جائے تواس سے مراد دہرا کردار (double standard) ہے۔ یعنی ایسا انسان جو حقیقت کے اعتبار سے دین سے دور ہوگیا ہو، لیکن خوبصورت الفاظ کے ذریعہ اپنے آپ کو دیندار بتائے۔ دوسرے الفاظ میں حقیقت کے فقدان کی تلافی خوبصورت الفاظ کے ذریعہ کرنا۔ منافقت کا مزاج کسی انسان کے اندر کیوں پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ اس کے اندر اسلام کی اسپرٹ باقی نہ ہو، لیکن ظاہری نوعیت کے کچھ عمل کا اظہار کرکے وہ اس بات کی کوشش کرے کہ وہ پورے معنوں میں اسلام پر قائم ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین ایک ، شریعت مختلف

اللہ رب العالمین نے انسان کی ہدایت کے لیے ہرزمانے میں پیغمبر بھیجے۔ایک روایت کے مطابق، ان پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 361)۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ان تمام انبیاء کا دین ایک تھا، البتہ ان کی شریعتیں مختلف تھیں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَمِنْہَاجًا (5:48)۔ یعنی ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک طریقہ ٹھہرایا۔
تمام پیغمبروں کا دین ایک تھا، اوروہ دین، دینِ توحید تھا (الشوریٰ 13:)۔یہاں دین سے مراد دینِ توحید ہے۔ یعنی مبنی بر توحید آئڈیا لوجی۔ توحید کی حیثیت ایک ابدی نظریہ (eternal ideology) کی ہے۔ یہ دین کا وہ پہلو ہے جو صلۃ العبد بربہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی بندہ اور خدا کے درمیان تعلق کا معاملہ۔ یہ ہمیشہ ایک رہا ہے، اور ہمیشہ ایک رہے گا۔
جہاں تک شریعت کا معاملہ ہے، تو وہ بندہ اور دوسرے انسانوں کے درمیان تعلق سے قائم ہوتا ہے۔ بندہ اور بندہ کے معاملے میں تعلق کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ مثلا کبھی حاکم اور محکوم کا رشتہ، اور کبھی انسان اورانسان کا رشتہ، وغیرہ۔ اس لیے اس دوسرے معاملے میں قانون کا ڈھانچہ ہمیشہ ایک نہیں ہوسکتا، وہ حالات کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔
مختلف انبیاء کے درمیان شرائع کا اختلاف اسی بنیاد پر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں انبیاء کے درمیان شریعت کا اختلاف ہوتا تھا، اور اب پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں شریعت ہمیشہ ایک رہے گی۔ یعنی ساتویں صدی عیسوی سے لے کر قیامت تک۔اصل یہ ہے کہ پیغمبر آخرالزماں کے زمانے میں بھی شریعت کا معاملہ وہی رہے گا، جو اس سے پہلے پچھلے انبیاء کے زمانے میں تھا۔ پیغمبر آخر الزماں کے زمانے میں بھی جب حالات بدلیں گے تو ضرورت ہوگی کہ اجتہاد کرکے شریعت محمدی کی نئی تطبیق (new application) دریافت کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

اکڑ کی چال

قرآن میں ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلَا تَمْشِ فِی الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا (17:37)۔ یعنی زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے اور نہ تم پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکتے ہو۔ اس آیت میں مشی (چلنا) صرف چلنے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پورے طریقۂ زندگی سے ہے۔یہاں چال سے مراد انسان کا پورا اخلاقی رویہ ہے۔انسان کے اندر ایک صفت ہے۔ یہ صفت انسان کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے اور یہی انسان کا سب سے بڑا مائنس پوائنٹ ہے۔ یہ صفت وہی ہے جس کو انا (ego) کہا جاتا ہے۔ ایک لفظ میں، اس صفت کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تواضع (modesty)پائی جائے۔ اس صفت کا مائنس پوائنٹ یہ ہے کہ آدمی کے اندر فخر (pride) کا جذبہ پیدا ہوجائے۔
ابلیس نے انسان سے اپنا تقابل کرتے ہوئے کہا تھا: أَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ (7:12)۔ یعنی میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھ کو آگ سے بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس غلط تقابل (wrong comparison)کا شکار ہوا۔ اپنے خیال کے مطابق، اس کو اپنا پلس پوائنٹ نظر آیا، اور آدم کا مائنس پوائنٹ دکھائی دیا۔
یہی انسان کی عام غلطی ہے۔ انسان اپنے خیال کے مطابق، ہمیشہ غلط تقابل کا شکار ہوتا ہے۔ وہ اپنے پلس پوائنٹ کو دیکھتا ہے، اور دوسرے کے مائنس پوائنٹ کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرےکو کم، اور اپنے کو زیادہ سمجھ لیتا ہے۔ اس تقابل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ غیر واقعی طور پر اپنے کو بڑا اور دوسرے کو چھوٹا سمجھ لیتا ہے۔ اور پھر اس کے اندر فخر اور غرور کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی کے اندر وہی صفت غائب ہوجاتی ہے جو انسان کی اصل صفت ہے، اور وہ ہے تواضع (modesty)۔ کوئی چیز اپنے انجام کے اعتبار سے پہچانی جاتی ہے۔ جو طرز فکر آدمی کے اندر تواضع پیدا کرے، وہ صحیح طرز فکر ہے، اور جو طرز فکر آدمی کے اندر برتری کا جذبہ پیدا کرے، وہ بلاشبہ غلط طرز فکر ہے۔
واپس اوپر جائیں

مومن کی صفت

مومن کی مثال ایسے نرم پودے کی سی ہے جس کے پتے سایہ دار ہوتے ہیں۔ جس سمت سے بھی ہوا چلتی ہے وہ اس کو جھکا دیتی ہے۔ جب ہوا رکتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ یہی حال مومن کا ہے جو مسلسل آزمائشوں کے بار سے دبا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال سخت درخت (ٹھنٹھ) کی طرح ہے، جو ایک حالت میں کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ اسے جب چاہتا ہے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5644)
اس حدیث میں پودے کی مثال کے ذریعہ مومن کی صفت تواضع کو بتایا گیاہے ۔ تواضع مومن کی ایک خاص صفت ہے۔ جس انسان کے اندر ایمانی کیفیت ہوگی، اس کے اندر تواضع بھی ضرور ہوگی۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیںہوسکتیں۔مومن کے اندر سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ نہیں ہوتی بلکہ نرم پودے کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اس سے کوئی کوتاہی ہوجائے تو فوراً ہی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتا ہے۔ کسی سے معاملہ پڑے تو وہ ہمیشہ اس کے ساتھ نرم روی کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ نزاع کے موقع پر وہ یک طرفہ طورپر مصالحت کے لیے تیار رہتا ہے۔ حقوق کے جھگڑے میں وہ اپنا حق دوسرے کو دینے پر راضی ہوجاتا ہے تاکہ معاملہ شدت کے مرحلہ تک نہ پہنچے۔
ایک انسان جب دوسرے انسان کے ساتھ شدت کا معاملہ کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کو اپنے جیسے ایک انسان کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہی نفسیات آدمی کو شدید بناتی ہے۔ مگر مومن اس کے برعکس ہر معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ یہ نفسیات اس کے اندر شدت کا خاتمہ کردیتی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے مقابلہ میں بڑا ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کوئی بھی انسان نہ بڑا ہے اور نہ طاقتور۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان اور انسان کا معاملہ ہو تو ان میں سے کوئی چھوٹا نظر آتا ہے اور کوئی بڑا۔ مگر جب انسان اور خدا کا معاملہ ہو تو تمام انسان یکساں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اب بڑا صرف ایک خدا ہوتاہے اور بقیہ تمام انسان اس کے مقابلہ میں چھوٹے۔
واپس اوپر جائیں

شتم رسول

شتم رسول (blasphemy) کا تصور اسلام میں اجنبی ہے۔ قرآن اور حدیث میں کہیں بھی اس کا حکم موجود نہیں۔ بعد کے دور میں کچھ علماء نے بطور خود یہ تصور وضع کیا، اور اس کو اسلام کا قانونی حصہ بنا دیا۔ پیغمبر اسلا م کو دعوت الی اللہ کا حکم دیا گیا تھا، یعنی خدا کے پیغام سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ قرآن میں پیغمبرکے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ۔ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ (88:21-22)۔ یعنی تم یاد دہانی کرو، تم صرف یاددہانی کرنے والے ہو، تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو۔یہی ذمہ داری امت محمدی کی ہے۔زندگی کے اسلامی نقشہ میں اس تصور کے لیے کوئی جگہ نہیں کہ جو شخص مفروضہ شتم کا ارتکاب کرے، اس کو مارڈالو۔ شتم کی اصل حقیقت اختلاف ِ رائے (difference of opinion) ہے۔
انسانی آزادی کی بنا پر دنیا میں اختلاف رائے کا معاملہ پیش آتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ شخص جس کو مسلمان بطور خود شاتم کہتے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اختلافی رائے رکھنے کا کیس ہے، نہ کہ شتم کا کیس۔ ایسے انسان کو دلیل کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر کوئی شخص آپ کو مختلف رائے رکھنے والا ملے تو آپ کو اس سے پیس فل ڈسکشن کا حق ہے، نہ کہ اس کو مارنے کا حق۔ ایسا انسان مجرم (criminal) نہیں ہے۔وہ خدا کی دی ہوئی آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کا کیس ہے۔ جو لوگ ایسے انسان کو قتل کرنے کا اعلان کریں، وہ خود غلط کار ہیں، نہ کہ مفروضہ شاتم ۔
امت محمدی کا مشن پر امن مشن ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے تو یہ اللہ رب العالمین کے دائرےکا کیس ہے، وہ کسی انسان کے دائرےکا کیس نہیں۔ جو لوگ ایسے انسان کو شاتم رسول کہہ کر اس کو قتل کرنا چاہیں، وہ خود انسانی دائرے سے نکل کر اللہ کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں، نہ کہ مفروضہ شاتم رسول ۔
واپس اوپر جائیں

عقل کا فقدان

امت کے بعد کے دور کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے: ذکر رسول اللہ ہرجا بین یدی الساعة حتى یقتل الرجل جارہ وأخاہ وابن عمہ، قالوا:ومعنا عقولنا یومئذ؟ قال:تنزع عقول أکثر أہل ذلک الزمان، ویُخَلَّف لہا ہیماء من الناس، یحسب أحدہم أنہ على شیء ولیس على شیء(الفتن لنعیم ابن حماد، قاہرۃ، 1412ھ ، حدیث نمبر115)۔ یعنی رسول اللہ نے قیامت سے پہلے پیش آنے والے ہرج (فتنہ) کا ذکر کیا،(اور کہا کہ ) یہاں تک کہ آدمی قتل کرے گا اپنے پڑوسی کو، اور اپنے بھائی ، اور اپنےچچاکے بیٹے کو۔ لوگوں نے پوچھا : کیا ان دنوں ہمارے پاس عقل ہوگی۔ آپ نے کہا:اس زمانے میں اکثر لوگوں کی عقلیں چھن جائیں گی، اور دیوانوں کے مانند لوگ بچیں گے۔ان میں سے کوئی شخص یہ سمجھے گا کہ وہ کسی چیز پر ہے، حالاں کہ وہ کسی چیز پر نہ ہوگا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ امت کے دورِ زوال میں یہ ظاہرہ اس بنا پر پیدا ہوگا کہ امت مسلمہ اپنے پہلے دور میں سیاسی عروج پر پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد قانونِ فطرت کے تحت اس کا اقتدار اس سے چھن جائے گا، دوسری قومیں اس کی جگہ غلبہ کا مقام حاصل کر لیں گی۔ اس دور میں امت کے اندر وہ ظاہرہ پیدا ہو گا جس کو عظمت رفتہ کا جنون (paranoia) کہا جاتا ہے۔ یہ احساس امت کے افرادکے اندر سخت قسم کی انتقامی دیوانگی پیدا کردے گا۔ امت کے افراد دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگیں گے۔ وہ ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھ لیں گے۔ وہ انتقامی نفسیات کے تحت چاہیں گے کہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو مٹا ڈالیں۔یہاں تک کہ وہ خود اپنے لوگوں کے دشمن ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہ ان کو یہ سمجھنے لگیں گے کہ وہ ان کے دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ امت کے لیے عقل کے فقدان کا وقت ہوگا۔ وہ ایسے کام کریں گے جن کا تعلق عقل و دانش سے نہ ہوگا۔لیکن وہ بطور خود یہ سمجھیں گے کہ وہ عقل پربھی ہیں ، اور اسلام پر بھی ۔
واپس اوپر جائیں

درجات کی بلندی

قرآن میں ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا قِیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللَّہُ لَکُمْ وَإِذَا قِیلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ (58:11)۔ یعنی اے ایمان والو، جب تم کو کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل کر بیٹھو تو تم کھل کر بیٹھو، اللہ تم کو کشادگی دے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو تم اٹھ جاؤ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان والے ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے، اللہ ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جو بظاہر معمولی ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ اس پر افنڈ (offend) ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میرے ساتھ امتیازی سلوک (discrimination) کا معاملہ کیا گیا، میرے اوپر تنقید کی گئی۔ میرے کام کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ مجھے نیچادکھانے کے لیے میرے خلاف سازش کی گئی۔ میں ترقی کا مستحق ہوں، لیکن لوگ مجھ کو ترقی دینا نہیں چاہتے۔ میں نے کام زیادہ کیا تھا، لیکن مجھے اس کا معاوضہ کم ملا۔ لوگ میرے حاسد بن گئے ہیں، اس لیے مجھے آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا، ان کو گوارا نہیں۔ جس درجے کا میں مستحق تھا، وہ درجہ مجھے نہیں دیا گیا، وغیرہ۔
اس قسم کی باتیں ہمیشہ غلط فہمی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جن لوگوں کے اندر سوچنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ لوگ اس قسم کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن جن کے اندر دانش مندی (wisdom) پائی جاتی ہے، وہ اس قسم کی تمام باتوں کو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں، یا ان کا مثبت انداز میں تجزیہ کرکے اپنے آپ کو بگاڑ سے بچالیتے ہیں۔جو لوگ اس طرح کے مواقع پر اپنے آپ کو منفی تاثر سے بچائیں، وہ اللہ کی خصوصی نصرت کے مستحق بن جاتے ہیں، اس کے بعد ان کے اندر مزید فکری ترقی ہوتی ہے، جو ان کے درجات کو بڑھانے والی ثابت ہوتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

اختلاف کے باوجود اعتراف

صحابہ ان لوگوںکو کہا جاتا ہے، جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست تربیت پائی ہو۔ صحابہ کا ہر قول اور ہر عمل پیغمبر اسلام کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صحابہ پیغمبر انہ اخلاقیات کا توسیعی نمونہ (extended example) تھے۔
صحابہ کے دو گروہ تھے — انصار اور مہاجرین۔ مہاجر صحابہ میں سے دو کے نام یہ ہیں: سعد بن ابی وقاص (وفات55ھ)، خالد بن الولید(وفات 21ھ)۔ ان دونوں کے تعلق سے ایک روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ روایت یہ ہے: کان بین خالد بن الولید، وبین سعد کلام، قال:فتناول رجل خالدا عند سعد، قال:فقال سعد:مہ، فإن ما بیننا لم یبلغ دیننا(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر 25535)۔ یعنی خالد بن الولید اور سعد کے درمیان (کسی نزاعی معاملے پر)تکرار ہوگئی۔راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک شخص نے سعد سے خالد کی برائی بیان کی۔ تو سعد نے کہا: دور ہو، ہم دونوں کے درمیان جو معاملہ ہے، وہ ہمارے دین تک نہیں پہنچے گا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو صحابی ، سعد بن ابی وقاص او ر خالد بن الولید کے درمیان کوئی ذاتی نزاع پیداہوگئی۔ کسی معاملے پر بات کرتے ہوئے دونوں کے درمیان تکرار ہوگئی۔ اس بات کو لے کر ایک شخص نے سعد بن ابی وقاص سے خالد بن الولید کی برائی بیان کی۔ لیکن سعد ایک اعلیٰ اخلاق والے آدمی تھے۔ انھوں نے فوراً کہا کہ ہمارے اور خالد کے درمیان جو اختلاف ہے، وہ ایک ذاتی نوعیت کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو ہم ذاتی حد تک رکھیں گے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کی بنا پر ہم ایک دوسرے کو دین کے اعتبار سے برا سمجھنے لگیں۔ اجتماعی زندگی میں باہمی نزاع کا پیدا ہونا، ایک عام بات ہے، لیکن اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ ذاتی معاملے کو دین سے الگ رکھیں۔ ذاتی شکایت کو وہ ایک دوسرے کے دین تک نہ لے جائیں۔ذاتی اختلاف کے باوجود وہ دینی اعتبار سے ایک دوسرےکے اعتراف میں کمی نہ آنے دیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور ظلم

بہت سے مسلمان ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرنا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کے خلاف ظلم ہورہاہے۔ تو ہمیں ظلم کے خلاف لڑائی بھی کرنی ہے۔ ہم کو دونوں کام کرنا ہے، ہم کو دعوت کا کام بھی کرنا ہے، اور اسی کے ساتھ ہم کو ظلم کے خلاف لڑنا بھی ہے— یہ قرآن کی زبان نہیں ہے، بلکہ وہ قومی لیڈر کی زبان ہے۔ قرآن کے مطابق، دعوت کا کام کرنےکی پہلی شرط یہ ہےکہ داعی اپنے مدعو کا ناصح (خیرخواہ) بنے۔ اگر خیر خواہی نہیں تو دعوت بھی نہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّکَ (22:67)۔ پس اس معاملہ میں وہ تم سے ہرگز نزاع نہ کریں۔ اور تم اپنے رب کی طرف بلاؤ۔
وہ تم سے ہرگز نزاع نہ کریں، یہ ایک عربی اسلوب ہے۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ لایضربنک زید۔ اس جملہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ زید ہرگز تم کو نہ مارے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ زید کو ہرگز مارنے کا موقع نہ دو۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق داعی کو ظلم کے مقابلے میں صبر کرنا ہے، نہ کہ لڑائی کرنا ۔ داعی کو اپنے مدعو سے کسی حال میں لڑنا نہیں ہے۔ اگر چہ بظاہر یہ دکھائی دے کہ مدعو ظلم کررہا ہے تب بھی داعی کو چاہیے کہ وہ ظلم کو مینج (manage) کرے، نہ کہ ظلم کے نام پر مدعو سے لڑائی کرے۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک خالص اخروی کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں انذار و تبشیر کا کام کہا گیا ہے۔ دعوت کا کام یہ ہے کہ انسان کو یہ بتایا جائے کہ اللہ رب العالمین کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے۔ انسان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے متقی انسان کی حیثیت سے ڈیولپ کرےکہ آخرت میں اس کو ابدی جنت میں داخلہ دیا جائے۔ دعوت ایک ایسا کام ہے، جو غیر قومی بھی ہے، اور غیر سیاسی بھی۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے۔ دفاعی جنگ حاکم کا معاملہ ہے۔ داعی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

روشن ہدایت

دینِ اسلام ہر اعتبار سے ایک واضح دین ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قد ترکتکم على البیضاء لیلہا کنہارہا، لا یزیغ عنہا بعدی إلا ہالک (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر43)۔ یعنی میں تمھارے پاس ایک روشن دین چھوڑ رہا ہوں، اس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح ہیں، میرے بعد کوئی اس سےدور نہیں ہوگا سوائے اس آدمی کے جو ہلاک ہونے والا ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جب دین اتنا واضح ہے تو اس میں اختلافات کیوں۔ قرآن کی تفسیر میں اختلاف، حدیث کی شرح میں اختلاف ، فقہی مسائل میں اختلاف، وغیرہ۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح مجھ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ لیکن آپ کے بعد نماز کے مسائل میں اتنے اختلافات ہوئے کہ مسلمانوں کے درمیان کئی مستقل فقہی اسکول بن گئے، وغیرہ۔
یہ اختلاف ایک مطلوب اختلاف ہے۔ یہ اختلاف اس لیے ہے تاکہ لوگ اس پر تدبر کریں۔لوگ خود اپنے ذہن کو استعمال کریں۔ یہاں تک کہ ہر شخص دین کو ری ڈسکور (rediscover) کرے، ہر آدمی خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہو۔
نجران کے کچھ حق کے متلاشی لوگ مدینہ آئے تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچائی کو دریافت کریں۔ یہ قصہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ (5:83) ۔ یعنی اور جب انھوں نے اس کلام کو سنا جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کی معرفت حاصل کر لی۔
آیت میں و اذا سمعوا کے بعد بظاہر علموا (انھوں نے جان لیا )آنا چاہیے تھا۔ مگر یہاں عرفوا کا لفظ آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سننے کے بعد ابتدائی طور پر انھوں نے سچائی کو صرف جانا تھا۔ مگر اپنی طرف سے تدبر کا اضافہ کرکے انھوں نے اپنے جاننے کو معرفت (self-discovery) بنایا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ وہ خود دریافت کردہ معرفت پر کھڑے ہونے کی سعادت حاصل کر سکیں۔
انسا ن کو اس کے خالق نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (91:8)۔ انسان کے آس پاس جو دنیا ہے جس کو قرآن مجید میں زمین و آسمان کے الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اس میںایسی آیات (signs) ہیں جو خاموش زبان میں سچائی کا اعلان کررہے ہیں۔ تاریخ کے تمام واقعات دین خداوندی کے صداقت کے گواہ ہیں۔ نیز یہ کہ پیغمبر کے ذریعہ قرآن و سنت کی صورت میں ہدایت کا پورا سامان انسان کے لیے مہیا کردیا گیا ہے، وغیرہ۔
اس کے باوجود قانون فطرت کے مطابق، دنیا کی تمام چیزوں کے ساتھ ہمیشہ ایک شبہ کا عنصر (element of doubt) موجود رہتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ۔ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَا یَلْبِسُونَ (7:8-9)یعنی اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتا را گیا۔ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو معاملہ کا فیصلہ ہوجاتا، پھر انھیں کوئی مہلت نہ ملتی۔ اور اگر ہم کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے تو اس کو بھی آدمی بناتے اور ان کو اسی شبہ میں ڈال دیتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
سچائی کی ہدایت اگرچہ انسان کو اللہ رب العالمین کی طرف سے دی گئی ہے۔ لیکن اللہ کو یہ منظور ہے کہ وہ اپنے ہدایت یاب بندوں کو اس بات کا کریڈٹ دے کہ انھوں نے اپنی عقل کو استعمال کرکے ذاتی طور پر سچائی کو دریافت کیا۔ اختلافات کے جنگل میں وہ خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑے ہوں۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے انسان کے لیے ایک مزید عنایت کا معاملہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

حقیقی اہمیت

پیغمبر اسلام کے طریقہ کا ایک پہلو یہ تھا کہ آپ کی نظر ہمیشہ حقائق پر ہوتی تھی،نہ کہ ظواہر پر۔ ظواہر میں اگر بے خبری کی بنا پر کوئی فرق ہوجائے تو اس کو آپ ناقابل لحاظ سمجھتے تھے۔ البتہ حقیقی اہمیت والی باتوں کے بارے میں آپ کا رویہ ہمیشہ بہت سخت ہوتا تھا۔
پیغمبر اسلام کے آخری حج کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میںتھوڑے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ آیا ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آپ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد منیٰ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آپ کے پاس آتے اور حج کے مسائل دریافت کرتے۔ کوئی کہتا کہ مجھے مسئلہ معلوم نہ تھا چنانچہ میںنے ذبح کرنے سے پہلے بال منڈوا لیا۔ کوئی کہتاکہ میںنے رمی سے پہلے نحر (قربانی) کرلی، وغیرہ۔ آپ ہر ایک سے کہتے کہ کرلو، کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح بار بارلوگ آتے رہے اور تقدیم اور تاخیر کی بابت سوال کرتے رہے۔ آپ ہر ایک سے یہی کہتے کہ کر لو، کوئی حرج نہیں(افعل ولاحرج) صحیح البخاری، حدیث نمبر 83۔
ابو داؤد کی روایت میں مزید ان الفا ظ کا اضافہ ہے: کوئی حرج نہیں، کوئی حرج نہیں۔ حرج تواس شخص کے لیے ہے جو ایک مسلمان کو بے عزت کرے۔ ایسا ہی شخص ظالم ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس نے حرج کیا اور ہلاک ہوا۔ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2015)۔ دین میں اصل اہمیت معانی کی ہے، نہ کہ ظواہر کی۔ ایک شخص ظاہری چیزوں کا زبردست اہتمام کرے مگر معنوی پہلو کے معاملہ میں وہ غافل ہو تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں بے قیمت ہوجائے گا۔
اللہ ہمیشہ آدمی کی نیت کو دیکھتا ہے۔ نیت اگر اچھی ہے تو ظاہری چیزوں میںکمی یا فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر آدمی کی نیت اچھی نہ ہو تو اللہ کی نظر میں اُس کی کوئی قیمت نہیں، خواہ اُس نے ظواہر کے معاملہ میں کتنا ہی زیادہ اہتمام کررکھا ہو۔ ظاہری خوش نمائی سے انسان فریب میں آسکتا ہے مگر ظاہری خوش نمائی کی خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سماجی آداب

ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک صحابی، وابصہ الاسدی پیغمبر اسلام کے پاس آئے۔ وہ نیکی اور بدی کے تمام سوالات آپ سے پوچھنا چاہتے تھے(لا أدع شیئا من البر والإثم إلا سألتہ عنہ)۔ رسول اللہ نے ان کے سوالات کا جواب نہیں دیا، بلکہ یہ فرمایا: یا وابصة استفت قلبک، واستفت نفسک ’’ ثلاث مرات‘‘، البر ما اطمأنت إلیہ النفس، والإثم ما حاک فی النفس، وتردد فی الصدر، وإن أفتاک الناس وأفتَوک(مسند احمد، حدیث نمبر 18006)۔ یعنی اے وابصہ ، اپنے دل سے فتویٰ پوچھو، اور اپنے جی سے فتویٰ پوچھو (یہ بات آپ نے تین بار کہی، اس کے بعد فرمایا) نیکی وہ ہے جس پر تمھارا دل مطمئن ہو، اور بدی وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹکے۔ اور تمھارے دل میں تردد پیدا ہو۔ چاہے لوگ کچھ بھی فتویٰ دیتے ہوں۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر آدمی ہر معاملے میں اپنا مفتی خود بن جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمسئلے کو شرعی مسئلہ نہ بناؤ۔ کھلی ممنوعات کے سوا جو چیزیں ہیں، ان میں کامن سنس (common sense) پر عمل کرو۔
مثلا انڈیا میں ملاقات کے وقت پاؤں چھونے کا رواج ہے۔ یہ عمل کوئی مذہبی عمل نہیں ہے، بلکہ وہ بطور احترام (as a mark of respect) ہوتا ہے۔ ملاقات کے وقت احترام کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلا سر کو یا ہاتھ کو بوسہ (kiss) کرنا، یا رکوع کی مانند جھک جانا، وغیرہ۔ جس طرح سے یہ علامتی طریقے جائز ہیں، اسی طرح علامتی طور پر پاؤں کا چھونا بھی جائز ہے۔
قرآن کے مطابق، حضرت یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کے سامنے بوقت ملاقات ایک فعل کیا تھا، جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا (12:100)۔ اس آیت میں معروف سجدہ مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد بطور تعظیم جھک جانا ہے۔ اس کا تعلق آداب حیات سے ہے، نہ کہ شرعی عبادت سے۔
واپس اوپر جائیں

دین میں عقل کا استعمال

دین میں عقل کا استعمال بلاشبہ عین درست ہے۔ خود قرآن میں لُبّ (عقل) کے استعمال کی ترغیب دی گئی ہے(ص 29:)۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی یونانی کلامیات کے ماڈل پر اسلام کو جانچنے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ الرازی (وفات311:ھ) اور الجوینی (وفات478:ھ) جیسے لوگوں نے کیا۔ قدیم زمانے میںمسلم متکلمین نے دین میں عقل کو استعمال کیا تو اس پر علماء نے سخت نکیر کی۔ مثلاً امام مالک ابن انس، اور امام ابویوسف نے کہا تھا : من طلب الدین بالکلام تزندق (ذم الکلام وأہلہ للہروی ، المدینة المنورة، 1998، 5/71 & 202)۔ یعنی جس نے دین کو کلام کے ذریعہ حاصل کرنا چاہا، وہ زندیق ہوگیا۔ یہ قول بجائے خود بلاشبہ درست ہے۔ لیکن وہ خود عقل کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ عقل کے ایک غلط استعمال کے اعتبار سے ہے، جوکہ حقیقت میں لفظی موشگافی تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں عقل ۔ حقیقت یہ ہےکہ عقل کا ارتقا صحیح معنوں میں اس وقت سے ہوا، جب کہ دنیا میں عقلی سائنس (scientific reasoning)وجود میں آئی۔
د ین میں عقل کے استعمال کا مطلب ہے کہ دینی مسائل کے معاملے میں عقلی اطمینان (البقرۃ260:) حاصل کرنا۔ تاکہ انسان جب اس دنیا سے جائے تو قلب سلیم (الشعراء 89:) کے ساتھ جائے۔ اس کی ایک مثال قرآن کی ایک آیت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: تو بہ، جس کو قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے، وہ ان لوگوں کی ہے جو بری حرکت نادانی سے کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول کرتا ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے (4:17)۔
قرآن کی اس آیت میں توبۂ قریب (speedy repentance)کا لفظ کیوں آیا ہے۔اس کا جواب علم النفس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ کے تین حصے ہیں۔ شعور (conscious mind)، تحت شعور (sub conscious mind)، لا شعور (unconscious mind)۔ یہ فرق انسان کی فطری ساخت کے مطابق ہے۔ جب آدمی غلطی کرتا ہے تو ابتداءاً غلطی کا شعور اس کے زندہ حافظہ (living memory)میں ہوتا ہے۔ اس وقت آدمی اگر اپنا محاسبہ (introspection)کرے تو ابتدائی مرحلہ میں آدمی اپنی غلطی کو شدت کے ساتھ محسوس کرے گا، اور جلد ہی وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرلے گا۔
لیکن اگر آدمی محاسبہ میں دیر کرے۔ تو اس کے بعد غلطی کا احساس اس کے زندہ شعور سے گزرکر اس کے دماغ کے اس حصہ میں چلاجائے گا، جس کو تحت شعور کہا جاتاہے۔ اب غلطی کے بارے میں اس کے اندرحساسیت بہت کم ہوجاتی ہے۔ آدمی نے اگر اب بھی اپنا محاسبہ نہیںکیا تواس کے بعد تیسرا درجہ یہ آتا ہے کہ غلطی کا احساس آدمی کےلاشعور میں چلاجاتا ہے۔ اس تیسرے درجے کو پہنچنے کے بعد آدمی کے اندر غلطی کے بارے میںکامل غفلت کا دور آجاتا ہے۔ اسی کو قرآن میں طول امد سے قساوت کاپیدا ہونا بتایا گیا ہے (الحدید16:)۔ اسی نفسیاتی تجزیے کا دوسرا نام دین کے معاملے میں عقل کا استعمال کرنا ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک اور آیت قرآنی کا مطالعہ کیجیے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان والو، تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اوپر مت کرو اور نہ اس کو اس طرح آواز دے کر پکارو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو (49:2)۔
اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ صرف پیغمبر کی فضیلت یا پیغمبر کے معاملے میں ادب کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ اصلاً وہ دین خداوندی کے اعتبار سے ہے۔ حبطِ اعمال کا یہ واقعہ پیغمبر کی مجلس میں بھی پیش آسکتا ہے، اور پیغمبر کی مجلس کے باہر بھی۔ اصل یہ ہے کہ جب دین خداوندی کی کوئی بات ہو تو انسان کو چاہیے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ وہ اس کوسنے۔ اگر وہ اس کو ایک غیر اہم بات کی طرح سنے گا تو دھیرے دھیرے وہ اس معاملے میں قساوت کا شکار ہوجائے گا، اور پھر بے شعوری کے اس درجے پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا ہی ممکن نہ رہے گا۔ ایسے آدمی کا یہ انجام اس لیے ہوگا کہ اس نے قانون فطرت کے مطابق پہلے مرحلہ میں اپنا محاسبہ نہیںکیا۔
واپس اوپر جائیں

مدح، تنقید

احادیث میںکثرت سے یہ تلقین کی گئی ہے کہ تم کسی کی مدح نہ کرو۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : إذا رأیتم المداحین، فاحثوا فی وجوہہم التراب(صحیح مسلم، حدیث نمبر 3002) یعنی جب تم مدح کرنے والوں کو دیکھو تو اُن کے منہ پر مٹی ڈال دو۔ اسی طرح ایک روایت میںآیا ہے:سمع النبی صلى اللہ علیہ وسلم رجلا یثنی على رجل ویطریہ فی مدحہ، فقال:أہلکتم أو قطعتم ظہر الرجل (صحیح بخاری، حدیث نمبر 2663)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی تعریف کررہا ہے اور اُس کی تعریف میں وہ مبالغہ کررہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا یا یہ فرمایا کہ تم نے اُس کی کمر توڑ دی۔
اسی طرح خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارہ میںایک روایت میں آیا ہے کہ اُنہوں نے کہا: المدح الذبح (الادب المفرد، حدیث نمبر 336)۔یعنی مدح کرنا آدمی کو ذبح کرنا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے سُنا تو اُنہوں نے کہا: عقرت الرجل عقرک اللہ (الأدب المفرد، حدیث نمبر335) یعنی تم نے اُس شخص کو ذبح کردیا، اللہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔
حدیث اور آثارکی کتابوںمیں اس طرح کی بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدح کا طریقہ دینی مزاج کے خلاف ہے۔ بعض اوقات اعتراف واقعہ یا اورکسی مصلحت سے کسی کی تعریف کی جاسکتی ہے۔ مگر عمومی طورپر اسلام میںاُس چیز کو سخت نا پسند کیا گیا ہے جس کو مدح خوانی یا قصیدہ گوئی کہا جاتاہے۔ اس قسم کی تعریف مادح کے لیے مصلحت پرستی ہے اورممدوح کے لیے اُس کو عُجب کی غذا دینا ہے۔ اس لیے یہ فعل مادح اورممدوح دونوں کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ احادیث میں تعریف کی مذمت تو کی گئی ہے مگر تنقید کی مذمت نہیں کی گئی ۔ غالباً کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں جس میںتنقید کے فعل کو اُس طرح مطلق طورپر مذموم قرار دیا گیا ہو جس طرح مدح کو مذموم قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس تنقید کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مثلاً بہت سی حدیثوں میں لسان کے ذریعہ نہی عن المنکر کا حکم آیا ہے اوراُس کوایمان کی لازمی علامت بتایا گیاہے۔ اسی طرح حدیث میں بتایا گیا ہے کہ سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ایک افضل جہاد ہے، وغیرہ۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کا کام تنقید ہی کی زبان میںہوگا، نہ کہ تعریف کی زبان میں۔ جب بھی ایک شخص کسی برائی کو دیکھے، خواہ برائی کرنے والا کوئی عام آدمی ہو یا خاص آدمی، اور پھر وہ اُس کے خلاف لسانی جہاد کرے تو یہ لسانی جہاد عین وہی فعل ہوگا جس کو تنقید کہا جاتاہے۔ نقد یا تنقید در اصل لسانی جہاد کا ہی دوسرا نام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت میں مدح اور تنقید کے درمیان یہ فرق کیوں کیا گیا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مدح ایک اخلاقی برائی ہے جب کہ تنقید ایک اعلیٰ درجہ کی علمی اور اخلاقی خوبی ہے۔ کسی معاشرہ میں مدح کا رواج پورے معاشرہ کو منافقت کامعاشرہ بنادیتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس سماج میںتنقید اور اختلاف کو سننے کا مزاج ہو وہ معاشرہ ذہنی اور فکری ترقی کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔
تنقید ایک مسلسل احتساب کا عمل ہے۔ تنقید زندہ معاشرہ کی علامت ہے۔ کسی معاشرہ میں تنقید کا عمل نہ ہونا یا تنقید کو بُرا سمجھنا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہو۔ وہ زندگی کی حرارت کھو بیٹھا ہو۔ کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت اُس کے اندر باقی نہ رہی ہو۔ تنقید کی حیثیت ایک علمی اور فکری چیلنج کی ہے۔ چیلنج ہر قسم کی ترقی کی واحد ضمانت ہے۔ جس معاشرہ میںچیلنج نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح جو معاشرہ تنقید سے محروم ہوجائے وہ علمی اور فکری ترقی سے بھی محروم ہوجائے گا۔
اس معاملہ کی تفصیل میںنے اپنی کتاب دین انسانیت کے باب ’’حریت فکر‘‘ میں بیان کی ہے اور اسلام کے دور اول کی مثالوں سے اُس کو واضح کیا ہے۔ تاہم تنقید اور تنقیص میں بہت زیادہ فرق ہے۔ یہاںتک کہ یہ کہنا درست ہوگا کہ تنقید مکمل طورپر جائز ہے اور تنقیص مکمل طورپر ناجائز ۔ تنقید بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے اور تنقیص بلا شبہ ایک غیر مطلوب چیز۔
تنقید در اصل علمی اختلاف کا دوسرا نام ہے۔ حقائق و واقعات کی روشنی میںخالص موضوعی انداز میںکسی معاملہ کا تجزیہ کرنا وہ چیز ہے جس کو تنقید کہا جاتا ہے۔ تنقید خواہ بظاہر کسی شخص کے افکار و آراء کے حوالہ سے ہو، مگراپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ معاملہ کی اصولی وضاحت ہوتی ہے۔ اُس میں غلط اور صحیح کے درمیان تقابل ہوتا ہے، نہ کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان۔
اس کے برعکس، تنقیص ایک شخصی عیب جوئی ہے۔ تنقیص کرنے والے کے سامنے اصلاً کسی امرِحق کی وضاحت نہیں ہوتی بلکہ ایک شخص کی تذلیل اورتحقیر ہوتی ہے جس کو اُس نے کسی وجہ سے اپنا مخالف سمجھ لیا ہے۔ تنقیص صرف ایک غیر اخلاقی فعل ہے، وہ کسی درجہ میں بھی کوئی علمی واقعہ نہیں۔ تنقید کا عمل اگر علمی اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے تو تنقیص کا عمل کسی شخص کے خلاف ذاتی سبّ وشتم کی بنیاد پر۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
تبیین حق سے مراد دعوت اعظم ہے۔ یعنی اعلیٰ ترین سطح پر دعوت حق کی ادائیگی۔ یہ وہی بات ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور ان کے انفس میں۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو قرآن میں آفاق و انفس کی آیات کے ذریعےحق کی اعلیٰ تبیین کہا گیا ہے، اور حدیث میں اس کو شہادت اعظم کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

القاب کلچر

انسان فطری طور پر عظمت پسند ہے۔ اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے پاس حقیقی عظمت نہ ہو تو وہ عظمت کے الفاظ بول کر اپنے اس جذبے کی تسکین حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن کے اندر القاب کلچر ترقی کرتا ہے۔ مثلا ً اپنی پسند کے افراد کو بڑے بڑے القاب دینا۔ جیسے گریٹ لیڈر، گریٹ تھنکر، گریٹ مائنڈ، وغیرہ۔
اس قسم کا القاب کلچر اسلام میں پسند نہیں کیا گیا ہے۔ چناں چہ صحابہ ہمیشہ سادہ الفاظ بولتے تھے۔ بڑے الفاظ کے ساتھ کسی کا ذکر کرنا، ان کے یہاں رائج نہ تھا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ القاب ہمیشہ مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ اسلام کی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی کو اس کی واقعی حیثیت کے مطابق پکارا جائے۔ مثلاً حضرت عمر نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب اختیارکیا۔ کیوں کہ بطور واقعہ وہ امیرالمومنین ہی تھے۔ ان الفاظ میں کسی قسم کا مبالغہ شامل نہ تھا۔ اس کے برعکس، شخصی سلطنت کے زمانے میں حکمرانوں کو شاہنشاہ جیسے الفاظ بولنا، یعنی بادشاہوں کا بادشاہ، وغیرہ۔ یہ لفظ ایک مبالغہ کا لفظ ہے۔کوئی بھی شخص حقیقت میں بادشاہوں کا بادشاہ نہیں ہوتا۔ لیکن ایسے الفاظ بول کر فرضی طور پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
مگر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اندر القاب کلچر رائج ہوجائے، ان کے اندر لازماً ایک چیز ختم ہوجاتی ہے۔ وہ ہے حقیقت پسندانہ سوچ (realistic thinking)،یا اَیز اِٹ اِز سوچ (as it is thinking) ۔ اسی کو سائنٹفک ٹمپر (scientific temper)کہا جاتا ہے۔ القاب کلچر حقیقت پسندانہ سوچ کا قاتل ہے۔اسی حقیقت کو ایک حدیث میں دعا کے الفاظ کے طور پر اس طرح کہا گیا ہے، اے اللہ مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا، جیسا کہ وہ ہیں(اللہم ارنا الاشیاء کما ھی)۔ القاب کلچر غیر حقیقت پسندانہ مزاج پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اس مزاج کا شکار ہوجائیں، وہ کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔
واپس اوپر جائیں

الأئمۃالمضلون

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ اس روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أن أخوف ما أخاف علیکم الأئمة المضلون(مسند احمد ، حدیث نمبر 27485)۔ یعنی میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ گمراہ کرنے والے لیڈر ہیں۔
اس حدیث میں بعد کو آنے والے جس زمانہ کاذکر ہے اُس سے مراد غالباً صنعتی انقلاب کا زمانہ ہے۔ یہ واقعہ بعد کے زمانہ میں ظہور میں آنے والا تھا۔ جب کہ امت مسلمہ واحد حامل دین کی حیثیت سے دنیا میں باقی رہے گی۔ اس لیے آپ نے اس معاملہ کو اپنی امت کی طرف منسوب فرمایا۔ واضح ہوکہ دوسری روایتوں میں علیکم کے بجائے علی امتی (مسند احمد، حدیث نمبر21297) کے الفاظ آئے ہیں۔ قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں گمراہ کن لیڈر کے ظہور کے مواقع موجود نہ تھے۔ موجودہ زمانہ میں آزادی، کمیونی کیشن، میڈیا اور لاؤڈ اسپیکر و اسٹیج نے ایسے مواقع پیدا کئے جن میں گمراہ کرنے والے لیڈر ابھریں اور پوری امت کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیں۔
یہ جدید قیادتی مواقع ایسے وقت میں ظہور میںآئیں گے جب کہ امت طول أمد کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ ایسی حالت میں کرنے کا اصل کام یہ ہوگا کہ جدید مواقع کو استعمال کرکے امت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر یہ ایک بے حد مشکل کام ہوگا۔ اس کے مقابلہ میں آسان کام یہ ہوگا کہ امت کی زوال یافتہ نفسیات کو استعمال کرکے اس کے اوپر اپنی قیادت کی بنیاد رکھ دی جائے۔ یعنی امت جہاں ہے وہیں سے اس کا سفر شروع کردیا جائے۔
یہ گمراہ کرنے والے لیڈر یہی دوسرا کام کریں گے۔ وہ امت کو فضائل کی پر اسرار کہانیاں سنا کر خوش فہمی میں مبتلا کریں گے۔ وہ ماضی کے تاریخی کارنامے بتا کر انہیں فخر کی غذا دیں گے۔ وہ سیاسی تقریریں کرکے ان کے جوش کو ابھاریں گے۔ وہ ادب اور خطابت کے الفاظ میں انہیں گم کریں گے۔ وہ امت کی پسماندگی کا الزام دوسروں کو دے کر جھوٹی نزاع کھڑی کریں گے۔ بائبل کے الفاظ میں، وہ امت کو لوریاں سنائیں گے اور اس طرح وہ امت کو اس کے زوال پر اور پختہ کردیں گے، نہ یہ کہ اس کو زوال کی حالت سے نکالیں۔
یہ وہی طریقہ ہے جس کو استحصال (exploitation) کہا جاتا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ آغاز سے سفر کرنا انہیں ایک بے حد لمبا سفر معلوم ہوگا، وہ اس قسم کی قربانی کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ اس لیے وہ آغاز سے سفر کرنے کے بجائے اختتام سے اپنے سفر کی چھلانگ لگادیں گے ، اور پھر خود بھی ہلاک ہوںگے اوراپنی قوم کو بھی ہلاک کریں گے۔
گمراہ کرنے والا لیڈر ہمیشہ یہ کرتا ہے کہ وہ ایسی باتیں بولتا ہے جو لوگوں کو پسند ہو۔ وہ لوگوں کے اندر چھپے ہوئے منفی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ وہ لوگوں کی جھوٹی شکایتوں کو سچا بنا کر دکھاتا ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کواپنی طرف کھینچتا ہے۔ اُس کی زبان سے اپنی دل پسند بولی سن کر لوگ اُس کے گرداکٹھا ہوجاتے ہیں۔
گمراہ لیڈر ہمیشہ یہی کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں سے یہ کہا جائے کہ تم اپنی اصلاح کرو تو بہت کم لوگ ہوں گے جو اُس پکار کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ اس لیے گمراہ لیڈر یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کی داخلی کمزوریوں کی بناپر پیش آنے والی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو بے قصور بتاتے ہیں اور دوسری قوم کو قصور وار۔ یہ چیز اُن کو اپنی قوم کے اندر مقبول بنادیتی ہے۔
جدید صنعتی دور میںنئے ذرائع کی بنا پر اس قسم کے لیڈروں کے لیے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ ہر زمانہ سے زیادہ بڑے پیمانہ پر لوگوں کو گمراہ کر سکیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ قوم کے لوگ آج ہر زمانہ سے زیادہ محتاط رہیں تاکہ وہ گمراہ کرنے والے لیڈروں کی گمراہی کا شکار نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال صرف لیڈر کے ہی لیے خطرناک نہیںہے بلکہ وہ خود قوم کے لیے بھی ایک عظیم خطرہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

نصیحت پذیری

کسی انسان کو جب حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی سوچ ایمانی سوچ بن جاتی ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ اسی ایمانی سنجیدگی کا ایک پہلو وہ ہے جس کو نصیحت پذیری کہا جاسکتا ہے۔ قرآن میں اس کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً تذکّر (الزمر9:) اعتبار (المؤمنون21:) توسم (الحجر 75:) ، وغیرہ۔اسی طرح حدیث میں بھی اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ مثلاً وصمتی فکراً ونظری عبرةً (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر1159) یعنی میری خاموشی سوچ کی خاموشی ہو،اور میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو۔
ایمان یا حق کی معرفت بھی بذات خود اسی نوعیت کی ایک چیز ہے۔ ایمانی معرفت کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مخلوقات پر غور کرکے خالق کو دریافت کرے۔ وہ دیکھنے والی دنیا کے اندر غیب کی دنیا کو پالے۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آیات(خارجی نشانیوں) کے ذریعہ داخلی حقیقتوں کو جان لے۔وہ بصارت کے ساتھ بصیرت کی استعداد حاصل کرلے۔
تدبر و تفکر مومن کا عام مزاج ہوتا ہے۔ اُس کا یہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ مزاج اُس کو دائمی طورپر اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیتا ہے۔ وہ ہر دن ایسی باتیں دریافت کرتا رہتا ہے جو اُس کے ایمان ویقین میںاضافہ کرنے والی ہوں۔ دوسرے لوگ صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں، مگر مومن اپنے اس مزاج کی بنا پر ظواہر میں حقائق کو دریافت کرلیتا ہے۔ تدبر اور تفکر کے اس عمل کے لیے کسی تنہائی یا مخصوص مقام کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل مومن کے دماغ میں ہر لمحہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ دنیا کے بھرے ہوئے ہنگاموں میں بھی وہ اُس سے منقطع نہیں ہوتا۔
نصیحت پذیری مومن کی روحانی خوراک ہے۔ مومن کے لیے مادی غذا اگر جسمانی تقویت کا ذریعہ ہے تو عبرت و نصیحت اُس کے لیے روحانی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔مادی غذا کے بغیر جسم صحت مند نہیں رہ سکتا،اسی طرح فکری غذا کے بغیر روحانیت کا ارتقاء ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کے ساتھ میں جیوں، اور وہ لمبی نہ ہو کہ میں اسے بھول جاؤں۔ آپ نے کہا: لا تغضب(مسند احمد، حدیث نمبر 23468) یعنی تم غصہ نہ کرو۔ یہ موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرنے کا سب سے زیادہ یقینی اصول ہے۔ ایک فرد کے لئے بھی اور پوری قوم کے لیے بھی۔
غصہ کیا ہے۔ غصہ در اصل ناپسندیدہ صورتِ حال کا منفی ردعمل (negative reaction) ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے ہر لمحہ کسی نہ کسی ناپسندیدہ صورت حال سے سابقہ پیش آتا ہے۔ کبھی کوئی ایسی بات پیش آجاتی ہے جس سے آپ کی انا(ego) بھڑک اٹھتی ہے۔ کبھی کسی کی ایک روش سے آپ کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کبھی مفاد کا ٹکراؤ آپ کے اندر مخالفانہ جذبات کو جگا دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے آپ کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں اور آپ کے اندر اس کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہی سب وہ چیزیں ہیں جن کو انسانی زبان میں غصہ کہا جاتاہے۔یہ غصہ آدمی کے لیے بے حد مہلک ہے۔ وہ آدمی سے اس کی سوچنے کی صلاحیت کو چھین لیتا ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل نہیں رکھتا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ اس کو تعمیر کے بجائے تخریب کے راستہ پر ڈال دیتا ہے۔ آدمی دوسرے کے خلاف غصہ کرتا ہے، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ہمیشہ آدمی کے اپنے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
موجودہ دنیا آزمائش کی دنیا ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اُس کو مشتعل کردیں، جو اُس کے اندر منفی نفسیات کو جگا دیں۔ اس صورت حال کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی صبر وتحمل کی روش اختیار کرے۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہونے کا آرٹ سیکھ لے۔ وہ اُن حالات کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے رہ سکے جن کو بدلنے کی قدرت اُس کو حاصل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

زوال کیا ہے

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود ونصاریٰ کو جو آسمانی تعلیم دی گئی تھی اس کا بڑاحصہ انہوں نے بھلا دیا :وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ…،فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ… (5:13-14)۔اس بھلانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ نے کوئی کانفرنس کرکے اس میں باقاعدہ یہ طے کیاہو کہ آج سے ہم فلاں چند باتیں یادر رکھیں گے اور بقیہ باتوں کو بھلا دیں گے۔ ایسا کبھی نہیںہوتا۔ اس قسم کا بھولنا ہمیشہ تاریخی اور نفسیاتی اسباب کے تحت ہوتا ہے۔ تاریخی طورپر دھیرے دھیرے یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ کچھ چیزیں لوگوں کے زندہ حافظے میں باقی رہتی ہیں، اور دوسری چیزیں ان کے زندہ حافظہ سے نکل جاتی ہیں۔ کچھ چیزوں کی اہمیت انہیں یاد رہتی ہے، اور کچھ چیزوں کی اہمیت سے وہ بے خبر ہوجاتے ہیں۔
حدیث میں ہے کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعدجوکچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے (لتتبعن سنن من کان قبلکم)صحیح البخاری، حدیث نمبر7320۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدی پر بھی ایسا وقت آسکتا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ لوگ دین کے ایک حصہ سے واقف ہوں اور انہیں دین کے دوسرے حصے کی خبر نہ رہے۔ دین کے بعض حصوں کی ان کے یہاں دھوم ہو اور دوسرے زیادہ بڑے حصہ کو انہوں نے اس طرح چھوڑ رکھا ہو، جیسے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ یہ بھی اس دین کا حصہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے ذریعہ ان کے پاس بھیجا تھا۔کسی قوم پر جب بھی یہ حالت آتی ہے تو وہ مزاج میں بگاڑ کی بنا پر آتی ہے۔
سب سے پہلے قوموں کا مزاج بگڑتا ہے، پھر اس کے نتیجہ کے طورپر ان کا اخلاق و کردار بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔مثلاً مختلف اسباب کے تحت ظواہر کو روح کا بدل سمجھ لینا ۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ دین کی ا صل روح کو جاننے اور اپنانے کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس کے خارجی مظاہر ہی کو سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے۔یہ زوال کی علامت ہے اور یہ زوال ہر امت کے ساتھ بہر حال پیش آتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عورت کا درجہ

اسلام میں عورت کادرجہ کیا ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ امام بخاری نے حضرت عبد اللہ ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے: حضرت بریرہ کے شوہر ایک غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغیث اپنی بیوی کے پیچھے چل رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس کیا تم کو اس پر تعجب نہیں کہ مغیث کو کتنی زیادہ محبت ہے بریرہ سے اور بریرہ کو کتنا زیادہ بغض ہے مغیث سے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ تم مغیث کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا آپ مجھے اس کا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ میں صرف سفارش کررہاہوں۔ بریرہ نے جواب دیا: تو مجھے اس کی ضرورت نہیں (لا حاجة لی فیہ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5283۔
بریرہ نے اپنے شوہر مغیث سے تفریق کرالی تھی۔ رسو ل اللہ نے بریرہ کو مشورہ دیا کہ تم رجوع کرلو، اور مغیث کے ساتھ زندگی گزارو، مگر بریرہ نے آپ کے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا، اور مغیث سے رجوع پر راضی نہیں ہوئیں۔اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کتنی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس حدیث کے مطابق، عورت نہ صرف مرد کے برابر ہے بلکہ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ خود پیغمبر اگر وحی کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرے تو وہ اس کو ماننے پر مجبور ہے، لیکن پیغمبر کے ذاتی مشورہ کو ماننا اس کے لیے ضروری نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اس اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق و فرائض مرد کے ہیں وہ حقوق و فرائض عورت کے بھی ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تووہ فطری سبب کی بنا پر ہے، نہ کہ دونوں جنسوں میں تفریق کی بناپر۔ اس قسم کا فطری فرق جس طرح عورت اور مرد کے درمیان ہے، اسی طرح وہ خود مرداور مرد کے درمیان بھی ہمیشہ موجود رہتاہے۔ یہ فطرت کامعاملہ ہے، نہ کہ فرق کا معاملہ۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی انقلاب میں عمومی تائید

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک غزوہ (جنگ) میںایک شخص نے حصہ لیا اور زبردست جنگی کارنامہ انجام دے کر جنگ کو جیتنے میںمدد دی۔ لیکن جنگ کے آخرمیںپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے اعلان فرمایا کہ یہ شخص اہل جنت میں سے نہیں ہے بلکہ اہل نار میں سے ہے۔ جن لوگوں نے اس جنگ میں اس کے بہادرانہ کارنامے دیکھے تھے، انہیں آپ کے اس ارشاد پر تعجب ہوا۔ مگر جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس آدمی نے بہادرانہ قتال تو ضرور کیا تھا مگر آخر میں اس نے خود اپنی تلوار سے اپنے کو ہلاک کر لیا۔ گویا کہ اس کا معاملہ خود کشی کا معاملہ تھا، نہ کہ شہادت کا معاملہ۔
اس واقعہ کے بعد پیغمبر اسلام نے حضرت بلال سے کہا کہ اے بلال اٹھو اور یہ اعلان کردو کہ جنت میں صرف وہی شخص جائے گا جو مؤمن ہواوراللہ بے شک اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی کرے گا (لا یدخل الجنة إلا مؤمن، إن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر) صحیح البخاری، حدیث نمبر 4203۔ اس حدیث سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام نے انسانی زندگی میں جو ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا چاہا تھا، اس کا آغاز اگرچہ مخلص اہل ایمان کریں گے مگر اس کی آخری تکمیل نسل در نسل کے تاریخی عمل کے ذریعہ ہوگی۔ اس تاریخی عمل میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی مؤثر طورپر اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیغمبر اسلام کایہ ارشاد آپ کے بعد کی تاریخ میں مسلسل واقعہ بنتا رہا ہے۔ مثال کے طورپر قرآن میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ آفاق و انفس میںایسی حقیقتیں ظاہر ہوں گی جو اسلام کی صداقت کو خالص علمی سطح پر ثابت شدہ بنا دیں (حم السجدہ 53:)۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیق کے بعد جو دریافتیں ہوئی ہیں، انہوں نے اس پیشین گوئی کو حرف بحرف ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا ہے۔ یہ جدید دریافتیں غیر مسلم قوموں کے ذریعہ ظہور میں آئی ہیں۔ مسلم افرادکا حصہ ان میں تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
واپس اوپر جائیں

بزدلی یا حکمت

میرا تجربہ ہے کہ جب لوگوں کے سامنے صبر کے اصول کو بتایا جائے تو وہ اس کو گوسفندی کا اصول یا بزدلی کا اصول سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کا رد عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگوں میں صحیح طور پر نہ عقلی غور و فکر کاارتقا ہوا، اور نہ اسلامی غور و فکر کا۔ یہ لوگ ایسے رہنماؤں سے متاثر ہوئے ہیں، جو خطابت اور شاعری، اور انشا پردازی کی زبان میں لکھتے اور بولتے ہیں، اور لوگ تجزیہ (analysis) سے بے خبر ہونے کی بنا پر ان کو درست مان لیتے ہیں۔
سوچنے کا آغاز یہاں سے ہونا چاہیے کہ قرآن میں اتنا زیادہ کیوں صبر (patience)کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ ہرشخص کو اپنے قول و فعل کے لیے پوری آزادی حاصل ہے۔ وہ چاہے تو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے، اور چاہے تو اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے۔ یہ خالق کی عطا کردہ آزادی ہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص اس آزادی کو منسوخ نہیں کرسکتا۔
اب انسان کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ یا تو وہ ناموافق حالات سے ٹکراؤ کے بجائے ان کوپرامن اندازمیں مینج کرنے کا طریقہ اختیار کرے، اور اس طرح کسی مزید نقصان سے بچتے ہوئے ممکن دائرے میں اپنا مقصد حاصل کرے، یا ابدی طور پر لوگوں سے لڑتا رہے، اور زندگی میں کبھی کوئی بامعنی مقصد حاصل نہ کرسکے۔
صبر بزدلی نہیں، وہ ایک دانشمندانہ اصول ہے۔ صبر کا مطلب ہے کہ ناموافق صورت حال پیدا ہونے کے بعد آدمی ٹکراؤ کو اوائڈ کرے۔ وہbuying time کی حکمت کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے عمل کی پرامن منصوبہ بندی کرے۔ وہ فطرت کے اس اصول کوجانے کہ اس کے لیے کیا چیز قابل حصول ہے، اور کیا چیز قابل حصول نہیں۔ کون سا طریقہ اس کو بے مقصد تباہی تک لے جاتا ہے، اور کون سا طریقہ بامقصد جد و جہد کی طرف۔صبر در اصل دانش مندانہ منصوبہ بندی کا نام ہے۔
واپس اوپر جائیں

عمل معیار ہے

بہت پہلے میں نے ایک مضمون پڑھا تھا۔ اس کے لکھنے والے سجاد حیدر یلدرم (وفات 1943:)تھے۔اس مضمون کا عنوان تھا، مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔ بعد کے تجربات کے ذریعہ میں نے یہ اضافہ کیا کہ مجھے میرے رشتہ داروں سے بچاؤ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ رشتہ داروں سے اخلاقی تعلق رکھنا چاہیے۔ ایسے تعلق سے بچنا چاہیے جس میں کوئی مادی انٹرسٹ شامل ہو۔
حضرت عمر فاروق سے ایک شخص نے کسی کی تعریف کی۔ حضرت عمر نے پوچھا کہ کیا ان سے تمھارا کوئی معاملہ پیش آیا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ حضرت عمر نے کہا کہ پھر تمھاری رائے کا کوئی اعتبار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے بارے میں رائے اس وقت قائم کرنا چاہیے جب کہ اس کے ساتھ کوئی عملی تجربہ پیش آیا ہو۔ عملی تجربہ کے بغیر رائے قائم کرنے کا کوئی اعتبارنہیں۔
ایک تابعی کا قول ہے: أدرکت الناس وہم لا یعجبون بالقول ، قال مالک:یرید بذلک العمل ،إنما ینظر إلى عملہ ولا ینظر إلى قولہ (الجامع فی الحدیث لابن وہب، حدیث نمبر406)۔ یعنی میں نے ایسے لوگوں (صحابہ) کو پایا ہے جو باتوں سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔امام مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد عمل ہے۔ یعنی انسان کے عمل کو دیکھا جائے گا، نہ کہ اس کے قول کو ۔
یہ بہت زیادہ حکمت کی بات ہے۔ ایسے انسان دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں، جو وہی کریں، جو انھوں نے کہا ہے، اور وہی کہیں، جو ان کو کرنا ہے۔ اس لیے کسی آدمی کے بارے میں رائے اس وقت قائم کرنا چاہیے جب کہ اس سے کوئی معا ملاتی تجربہ پیش آیا ہو۔ انسان کو اس کے قول سے پہچاننا، بہت بڑی بھول ہے۔ انسان کو صرف اس کے عمل سے پہچاننا چاہیے۔ اس معاملے میں رشتہ دار کا کوئی استثنا نہیں، بلکہ رشتہ دار سے معاملہ کرتے ہوئے اور بھی زیادہ احتیاط کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آدمی اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے اکثر حسن ظن کی بنا پر غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بیمار ی سے تطہیر

حدیث میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک شخص بیمار ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کہا :لا بأس طہور إن شاء اللہ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 5662)۔ یعنی کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کہا: کفارة وطہور (مسند احمد، حدیث نمبر 13616)۔ یعنی یہ کفارہ اور پاکی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر اس کے گناہ دھل جاتے ہیں، وہ خود بخود ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ بلکہ یہ ایک معلوم شعوری واقعہ ہے جو ایک سچے مومن کے ساتھ پیش آتا ہے۔کوئی آدمی اگر بیمار نہ ہو، اُس کا جسم مکمل طورپر ایک صحت مند جسم ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کے سینہ میں دردمندانہ احساسات کی پرورش نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔لیکن جب ایک مومن بیماری میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔
اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔بیماری بظاہر ایک غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر صحیح اسلامی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
واپس اوپر جائیں

شدت پسندی نہیں

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لا تشددوا على أنفسکم فیشدد علیکم، فإن قوما شددوا على أنفسہم فشدد اللہ علیہم، فتلک بقایاہم فی الصوامع والدیار (سنن أبی داؤد، حدیث نمبر4904)۔یعنی تم اپنے آپ پرسختی نہ کرو ورنہ تمہارے اوپر سختی کی جائے گی۔ کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللّٰہ نے بھی ان پر سختی کی۔ تو انہی لوگوں کے باقیات ہیں گرجوں میں اور خانقاہوں میں۔ اس حدیث میں تشدد سے مرادمحدود طور پر صرف مذہبی تشدد یا انتہا پسندانہ رہبانیت نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسانی زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ جس معاملہ میں بھی اعتدال کا طریقہ چھوڑ کر شدت کا طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ سب اس حدیث کے حکم میں شامل ہوگا۔
اعتقادی شدت پسندی یہ ہے کہ جزئی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کی تکفیر اور تفسیق کی جانے لگے۔ اسی طرح عبادتی شدت پسندی یہ ہے کہ فروعی مسالک کی بنیاد پر الگ الگ مسجدیں بنائی جائیں ،اور اس کو امت میں تفریق کی حدتک پہنچادیا جائے۔ اسی طرح معاملاتی شدت پسندی یہ ہے کہ رخصت کوکم تر سمجھ کر ہر معاملہ کو عزیمت کا سوال بنا دیا جائے۔شدت پسندآدمی اپنے آپ میں جیتا ہے۔ وہ صرف اپنی امنگوں کو جانتا ہے۔ اس بنا پر اس کی حیثیت اس انسان جیسی ہو جاتی ہے جو سڑک کو خالی سمجھ کر اس کے اوپر اپنی گاڑی دوڑانے لگے۔ ایسا آدمی کبھی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس دنیا میں کامیابی کا راز اعتدال پسندی ہے، نہ کہ شدت پسندی۔ شدت پسندی گویا خدا کے تخلیقی نقشہ کے خلاف جینے کی کوشش کرنا ہے، اوراعتدال پسندی خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کرنا۔شدت پسندی اپنی ذات کے اعتبار سے تواضع کے خلاف ہے، اور دوسروں کے اعتبار سے رعایتِ انسانی کے خلاف۔ اور یہ دونوں چیزیں بلاشبہ اسلام میں مطلوب نہیں۔
شدت پسندی اللہ کو پسند نہیں۔ جو لوگ شدت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اُن کا انجام یہ ہوتا ہے کہ متشددانہ طریقہ اُن کی روایات میںشامل ہو کر اُن کے دین کا جزء بن جاتا ہے۔ اس طرح اُن کی بعد کی نسلیں مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اُن کی پیروی کریں۔ کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ معیار سے کم تر درجہ کی دین داری اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس شدت پسندی کا تعلق محدود طورپر صرف رہبانیت سے نہیں ہے بلکہ اُس کاتعلق ہر دینی شعبہ سے ہے۔ مثلاً قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کے لیے دو ممکن طریقے ہیں۔ ایک پُر امن جدوجہد، اور دوسری پُر تشدد جد وجہد۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پُرامن اور غیر متشددانہ طریقۂ کار کے ذریعہ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہدکی جائے۔ اس کے برعکس، اگر متشددانہ طریقۂ کار کا انداز اختیار کیا جائے تو اس کےبیک وقت دو نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ قوم کو غیر ضروری سختیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ دوسرے یہ کہ جب ایک بار متشددانہ طریقۂ کار کی روایت قائم ہوجائے گی تو اُسی کو جدوجہد کے اعلیٰ معیار کی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ متشددانہ طریقۂ کار کو بے نتیجہ سمجھتے ہوئے بھی لوگ اس پر قائم رہیں گے۔ کیوں کہ اس سے ہٹنے کے بعد لوگوں کو محسوس ہوگا کہ انہوں نے خود دین کے مطلوب معیار کو چھوڑ دیا ۔ اُنہوں نے عزیمت کے بجائے رخصت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اُنہوں نے اقدام کے بجائے پسپائی کو اپنا طریقہ بنالیا۔
شدت پسندی ہی کی ایک صورت وہ ہے جس کو انتہاپسندی (extremism) کہا جاتا ہے۔ انتہا پسندی یہ ہے کہ آدمی حقائق اورامکانات کو نظر انداز کرکے اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ وہ عقل کے بجائے اپنے جذبات کی رہنمائی میں چلنے لگے۔ وہ دور اندیشی کے بجائے عجلت پسندی کی روش اختیار کر لے۔ وہ تدریج کے بجائے چھلانگ کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہے۔ ایساآدمی یہ کرتا ہے کہ وہ شوق کو اپنے آگے رکھ دیتا ہے اور دور اندیشی کو اپنے پیچھے۔ وہ بھول جاتاہے کہ ہر ایک کی ایک حد ہے، خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی گروہ۔ حد کو نظرانداز کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص جلتے ہوئے انگارے کی گرمی کا اندازہ کرنے کے لیے اُس کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یا پتھر کو توڑنے کے لیے اپنے سر کو ہتھوڑا بنا لے۔ اس قسم کا ہر فعل حد سے تجاوز کرنا ہے۔ اور حد سے تجاوز کرنے والے لوگ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
واپس اوپر جائیں

تشدد کا سبب عدم قناعت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: قد افلح من أسلم ورزق کفافاً وقنعہ اللہ بما آتاہ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1054) یعنی وہ شخص کامیاب ہوا جواسلام لایا اور جس کو بقدر ضرورت رزق ملا اور وہ اُس پر قانع ہوگیا جواللہ نے اُس کو دیا۔
اس حدیث میں قناعت کا ذکر ہے۔ قناعت کی نفسیات اگر کسی کے اندرپوری طرح پیدا ہوجائے تو وہ اُس کو مکمل طورپر امن پسند بنادے گی۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر قناعت کی نفسیات نہ ہو وہ اپنی حالت پر غیر مطمئن رہیں گے، اور آخر کار جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو کرمتشددانہ کارروائی شروع کردیں گے تاکہ جس چیزکو وہ پُر امن طورپر حاصل نہ کرسکے، اُس کو وہ تشدد کی طاقت سے حاصل کرلیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قناعت سے امن کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اور عدم قناعت سے تشدد کامزاج۔ قناعت کا جذبہ آدمی کے اندر یہ نفسیات پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک پایا ہوا انسان ہے۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو پایا ہواانسان سمجھے، وہ کبھی جھنجھلاہٹ اور تشدد کا شکار نہیں ہوسکتا۔
اس کے برعکس معاملہ اس انسان کا ہے جو عدم قناعت کی نفسیات میںمبتلا ہو۔وہ ہمیشہ احساس محرومی کا شکار رہے گا۔ اُس کا یہ احساس اُس کو مسلسل اُکسائے گا کہ جو کچھ اُس نے نہیں پایا اُس کو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگر اُس نے دیکھا کہ وہ اپنی نہ پائی ہوئی چیز کو پر امن طریقہ سے حاصل نہیںکرسکتا تو وہ تشدد کے طریقوں کو استعمال کرکے اُس کو حاصل کرنا چاہے گا۔
وہ اُن تمام لوگوں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا جن کووہ اپنے خیال کے مطابق، اپنی خواہش کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ اُن لوگوں سے نفرت کرے گا۔ وہ اُن لوگوں کے خلاف لڑنے کے لیے ہتھیار جمع کرے گا۔ حالانکہ یہ سب نتیجہ ہوگا اس بات کا کہ وہ خدا کے دیے ہوئے پر راضی نہ ہوسکا، وہ قناعت کے بجائے عدم قناعت کا شکار ہوگیا۔
واپس اوپر جائیں

سگریٹ نوشی کی عادت

پاکستان کے سابق فوجی حکمراں جنرل ایوب خان (1907-1974)کو سگریٹ نوشی کی عادت تھی۔ روز صبح ان کا بٹلر سگریٹ کی پیکٹ ٹرے میں رکھ کران کے بیڈ روم میں پہنچادیتا، اور وہ اپنے صبح کا آغاز سگریٹ سے کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے۔وہاں ان کا بنگالی بٹلر ایک دن ان کو صبح کے وقت سگریٹ دینا بھول گیا۔ یہ دیکھ کر جنرل ایوب خاںکو شدید غصہ آیا۔ وہ اس بنگالی بٹلر کوسختی سےڈاٹنے لگے۔ جب جنرل ایوب خان خاموش ہوئے تو بنگالی بٹلر نے انھیں ادب سے کہا کہ کمانڈر میں قوت برداشت ہونی چاہیے تاکہ وہ فوج کو چلائے ۔ آپ کے عدم برداشت سے مجھے پاکستانی فوج اور اس ملک کا مستقل خراب دکھائی دے رہاہے۔ بٹلر کی بات ایوب خان کے دل پر لگی، انھوں نے اسی وقت سگریٹ پیناچھوڑدیا، اس کے بعدپھر کبھی سگریٹ نہیں پیا۔ (ماہنامہ انذار، مئی 2017، صفحہ 28)
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سگریٹ پینے کی عادت ہوجائے تو اس کو چھوڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر تاریخ میں اس طرح کے واقعات ہیں کہ ایک شخص جو سگریٹ نوشی کا عادی تھا، اس کو کسی موقعہ پر سخت جھٹکا لگا، اور پھر اسی وقت اس نے سگریٹ پینا چھوڑ دیا، اور پھر کبھی نہیں پیا۔ اس طرح کی عادتیں یا تو فوراً چھوٹتی ہیں، یا کبھی نہیں چھوٹتی ۔
تجربہ ہے کہ کوئی عادت تدریجی طور پر نہیں چھوٹتی ہے۔ وہ اچانک فیصلہ کے تحت چھوٹتی ہے۔ جو لوگ کسی عادت کو تدریجی طور پر چھوڑنا چاہیں، وہ اپنی عادت کو کبھی چھوڑ نہیں پاتے۔ کیوں کہ تدریجی طریقے میں طاقت ور ارادہ (strong will power) کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ طاقتور ارادہ ہمیشہ کسی سخت جھٹکے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ طاقتور ارادہ اچانک پیدا ہوتا ہے، نہ کہ تدریجی طور پر۔ آپ کوکوئی بڑا کام کرنا ہے تو طاقتور ارادہ پیدا کیجیے، اس کے بعد بڑا کام کرنا آپ کے لیے آسان ہوجائے گا۔ یہی اس معاملے میں واحد طریقۂ کار ہے۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کا اندازہ

یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی اکثر اپنے آپ کو اس سے زیادہ سمجھتا ہے، جتنا کہ دوسرے لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی کے اندر صلاحیت ابتدائی طور پر بالقوۃ (potential) طور پر ہوتی ہے، وہ صلاحیت واقعہ اس وقت بنتی ہے، جب کہ کوئی شخص اپنے اس بالقوۃ کوبالفعل (actual) بنا لے۔
عام طور پر لوگ شعوری یا غیر شعوری طور پراس فرق کو نہیں سمجھتے۔ وہ اپنا اندازہ اپنی فطری صلاحیت کے اعتبار سے کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کسی کی صلاحیت دوسروں کے لیے صرف اس وقت واقعہ بنتی ہے، جب کہ وہ آدمی اپنی اس صلاحیت کو واقعہ کی شکل دے دے۔صلاحیت ابتدائی طور پر ایک داخلی چیز ہے، جو ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے آدمی خود تو اس کو محسوس کرسکتا ہے۔ لیکن دوسرے لوگوں کے لیے وہ ایک نامعلوم حقیقت بنی رہے گی۔
لوگوں کا یہ مزاج ان کو دوسروں کے بارے میں منفی بنا دیتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اس کا اعتراف نہیں کررہے ہیں۔ جو چیز بے خبری کی بنا پر ہوتی ہے، اس کو وہ حسد پر محمول کرلیتے ہیں۔
یہ روش ایک مہلک روش ہے۔ اس معاملے میں آدمی کے لیے دو آپشن (option)ہوتا ہے۔ یا تو وہ لوگوں کے اعتراف اور بے اعترافی سے بے نیاز ہوجائے۔ وہ اس کی پرواہ نہ کرے کہ لوگ اس کو کیا مقام دے رہے ہیں۔ اور اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کو لوگوں کے درمیان وہ مقام ملے جس کا وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی نظر میں اپنے آپ کو اس کے مطابق بنا ئے۔
یہ حقیقت ہے کہ لوگ کسی انسان کو اس کی داخلی صفت کے اعتبار سے نہیں دیکھتے۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ خارجی اعتبار سے وہ کیسا ہے۔ خارج کے اعتبار سے آپ جیسے ہوں گے، وہی درجہ آپ کو دوسروں کی نظر میں ملے گا۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 255

■ مسٹر مارسیا ہارمنسین (Marcia Hermansen) شکاگو کی لوئلا یونیورسٹی (Loyola University) میں تھیولوجی کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے 9 مارچ 2017 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی) میں ایک لکچر دیا۔ اس لکچرکا عنوان تھا— Muslim Theological Approaches to Nonviolence ۔ اس خطاب میں انھوں نے عدم تشدد اور امن کے میدان میں صدر اسلامی مرکز کے کنٹری بیوشن کا بطور خاص اعتراف کیا۔
■ 4 اپریل 2017 کی شام کو امریکا کے مسٹر کیلی کرسپ (Kelly Crisp) صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ مسٹر کیلی اس سے پہلے صدر اسلامی مزکر کی کتابیں پڑھ چکے ہیں۔ دورانِ گفتگو انھوں نے کہا کہ آپ کی کتابیں پڑھنے سے روحانی ارتقا حاصل ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آج سے میں چھوٹی سے چھوٹی چیزوں سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔
■ 4 اپریل 2017 کو سی پی ایس (ناگپور ٹیم) کے ممبر جناب ساجد احمد صاحب نے ایس ایس ہائی اسکول اور جونیئر کالج موربا (مہاراشٹر) کا دورہ کیا۔ دورہ کا مقصد پرنسپل اور اسٹاف ممبران میں قرآن اور دعوہ لٹریچرتقسیم کرنا تھا۔ ان میں اکثریت مراٹھی جاننے والوں کی تھی، لہذا ان کو مراٹھی زبان میں قرآن اور دعوہ لٹریچر دیئےگئے۔انھوں نے اس کو بخوشی قبول کیا اورشکریہ ادا کیا۔
■ یونیورسٹی آف نوٹرےڈیم(امریکا) اور انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ ریلیجس تھاٹ (نئی دہلی) کے اشتراک سے دینی مدارس کے فضلا کے لیے ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد مدارس کے ان فضلاء کے اندر جدیدعلمی شعور پیدا کرنا ہے۔اس پروگرام کودہلی میں ڈاکٹر وارث مظہری (لکچرار، اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہـ،نئی دہلی) لیڈ کررہے ہیں۔ 8 اپریل 2017 کو ان حضرات نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور ان سے استفادہ کیا۔ آخر میں ان سبھی حضرات کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ 8 اپریل 2017 کو سی پی ایس (ممبئی ) کے ممبران دہلی تشریف لائے۔ ان کی دہلی آمد کا مقصد صدر اسلامی مرکز سے استفادہ کرنا، اور اپنے دعوتی تجربات کو شیئر کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی ایک میٹنگ سی پی ایس کی دہلی ٹیم سے ہوئی، جس میں آئندہ کے دعوتی لائحہ عمل کے بارےمیں تبادلہ خیال ہوا، اور کچھ اہم فیصلے لیے گئے۔
■ 9 اپریل 2017 کو پیس آڈیٹوریم (سہارنپور)میں ڈاکٹر ہانیمان ڈے (Dr. Hahnemann’s Day) کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ تقریب کے بعد یوپی اور پنجاب سے آئے ہوئے معزز مہمانوں کوسی پی ایس سہارن پور کی جانب سے بطور تالیف پیس ایوارڈ اور بطور دعوت صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
■ 11 اپریل 2017 کو ودیا ساگر یونیورسٹی(مدنا پور ،مغربی بنگال) نے بنگال کے عظٰیم اسکالرپنڈت ایشور چندر ودیاساگر کی کتاب کے نئے ایڈیشن کے اجراء کی تقریب کا اہتمام کیا ۔ اس پروگرام میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رنجن چکرورتی شریک تھے۔ اس کے علاوہ اسپیکر کی حیثیت سے جو لوگ شریک ہوئے وہ ہیں، پروفیسر ارون ناگ (ایڈیٹر ، ودیا ساگر رچناسامگرا) اور مسٹر سیباجی پرتیم بسو (پروفیسر آف پولیٹکل سائنس، ودیاساگر یونیورسٹی) ۔ سی پی ایس (کولکاتا )کی متحرک خواتین ممبر،محترمہ شبینہ علی اور شبانہ خاتون نے پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نےوہاںپر موجود تمام اہم شخصیات سے تبادلۂ خیال کیا، اور ان کو دعوتی لٹریچر تحفے میں دیا۔تمام لوگوں نےاس اسپریچول گفٹ کو خوشی اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ یہ تقریب کولکاتا کے مشہور وکٹوریہ میموریل ہال میں منعقد کی گئی تھی۔
■ 12 اپریل 2017 کو جمیل احمد ملک صاحب کے صاحبزادے کے ولیمہ کا اہتمام چوپرا لان (ناگپور) میں کیا گیا۔ اس تقریب میں اہم شخصیات مدعو تھیں۔ سی پی ایس (ناگپور ٹیم) کو اس تقریب میں ترجمہ قرآن(مراٹھی، ہندی انگلش اور اردو) اور صدر اسلامی مرکز کے دعوہ لٹریچر کو مہمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی دعوت ملی۔سی پی ایس ٹیم نے مہمانوں کے درمیان ترجمۂ قرآن اور دعوہ لٹریچر بطور تحفہ تقسیم کیا۔
■ 12 اپریل 2017 کو شہاب الدین احمد صاحب (سینئر ممبر،سی پی ایس ، کولکاتا اور سابق ڈپٹی کمشنرآف کمرشیل ٹیکس، حکومت بنگال) نے عالمی یوم صحت کے موقع پرشہر کے مشہور ڈاکٹر اور معزز شخصیات کو صدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچربطور تحفہ پیش کیا۔ ان تمام لوگوں نے خوشی اور شکریہ کےساتھ یہ اسپریچول گفٹ قبول کیا۔ ان شخصیات میں ڈاکٹر بشوروپ رائے چودھری ذیابیطس کے علاج، اور ڈائٹ کے لیے عالمی شہرت یافتہ ہیں۔ اس کے علاوہ جناب شہاب الدین صاحب نے اسی دن مسٹر بجالی گھوش ([Bijalee Ghosh] سابق اے ڈی ایم و اسپیشل سکریٹری) کو قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی کتابیں ہدیہ میں دیں۔ یہ مسٹر بجالی گھوش کا بحیثیت ہیرنگ آفیسر (hearing officer) ریٹائرمنٹ کا موقع تھا۔ موصوف نے شکریہ کے ساتھ اسپریچو ل گفٹ قبول کیا۔
■ 14 اپریل 2017 کو چنئی میموریل سنٹر میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی یومِ پیدائش کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ایک کثیر مذہبی مقدس کتاب کی تلاوت کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف مذاہب ، مثلا ہندو ازم، مسیحیت، بدھ ازم، اور اسلام کے دینی رہنماؤں کو مدعو کیاگیا تھا۔ سی پی ایس چنئی کی طرف سے مولانااسرارالحسن عمری صاحب نے قرآن کی تلاوت کی۔ پروگرام کے بعد شرکاء کے درمیان ترجمہ قرآن تقسیم کیے گئے۔ شرکاء میں بڑی تعداد اعلى افسران کی تھی۔
■ اپریل 2017 میں چائنا کی نائب صدر لیو یانڈونگ (Liu Yandong)نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران 19 اپریل 2017 کو وہ استانبول کی تاریخی بلو مسجد (Sultan Ahmet)کو دیکھنے کے لیے گیے۔مسجد کے امام صاحب نے اس موقع پر ان کو چائنیز ترجمۂ قرآن تحفہ میں پیش کیا۔ یہ وہی ترجمۂ قرآن ہےجس کو گڈ ورڈ بکس، دہلی نے شائع کیا ہے۔ واضح ہو کہ ترکی کی دو مسجدوں میں آنے والے سیاحوں کے درمیان گڈ ورڈ بکس سے چھپے ہوئے قرآن کے تراجم تقسیم کیے جاتےہیں۔ ایک ہے بلو مسجد، اور دوسری ،رستم پاشا مسجد (Rüstem Paşa Mosque) ۔
■ 19 اپریل 2017 کو جماعت اسلامی ( چنئی) نے صحافیوں اور مصنفوں کے لیے ایک گٹ ٹو گیدر کا اہتمام کیا۔ سی پی ایس(چنئی) نے اس میٹنگ میں شرکت کی، اور لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا، اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔
■ 23 اپریل 2017 کو سو سال پرانے انگریزی اخبار ’دی ہندو’ نے اپنے بک ڈے کے موقع پر ایک تقریب ’رائٹرس ورسس ریڈرس میٹس‘ کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب اخبار کے ہیڈ کواٹر چنئی میں منعقد ہوئی۔ چنئی سی پی ایس ٹیم نے اس میں شرکت کی اور اخبار کے ایڈیٹوریل ٹیم سے تبادلۂ خیال کیا۔ بعد میں اس پوری گفتگوکو دی ہندو نے ڈنائونسنگ مسلم اکسٹریمزم ('Denouncing Muslim Extremism') کے عنوان سے شائع کیا۔
■ یکم مئی 2017 کو زی ٹی کی طرف سے فائیو اسٹار ہوٹل نور محل (کرنال، ہریانہ) میں ایوارڈ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں زی ٹی وی کی جانب سے ڈاکٹر محمداسلم خان(سی پی ایس ، سہارن پور) کو اسپریچوالٹی اور ہیلتھ سیکٹر میں ان کی حصہ داری کے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تقریب کے بعد شرکاء کے درمیان سی پی ایس سہارن پور کی جانب سےترجمۂ قرآن و دعوہ لٹریچر تقسیم کیا گیا۔
■ 2 مئی 2017 کو وائس آف امریکا کے لئے مسٹر ارباب علی نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا موضوع ایکسٹریمزم (Extremism) تھا۔ یہ انٹرویو آن لائن لیا گیاتھا۔
■ انٹرفیتھ کانفرنس فار پیس کے عنوان سے ایک سیمینار 6مئی 2014 کو کراچی، پاکستان، میں منعقد ہوا تھا، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اسکالروں نے حصہ لیا۔ جیسےکناڈا سے ڈاکٹر تموتھی پال (Timothy Paul)، امریکا سے ڈاکٹر مائک گوش (Mike Ghouse)، اورانڈیا سے صدر اسلامی مرکزنے خطاب کیا۔ صدر اسلامی مزکر کا خطاب بذریعہ انٹرنیٹ ہوا۔اس پروگرام کے کنوینر تھے، ڈاکٹر یعقوب علی شاہ۔ یہ پروگرام فیس بک پر لائیو کاسٹ کیا گیا تھا، جس کو دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھا اور پسند کیا گیا۔
■ سی پی ایس کی مقامی ٹیمیں اپنے طور پر آپس میں ملتی جلتی رہتی ہیں، تاکہ مشن کے کام کو بڑھایا جاسکے۔اس سلسلے میں 5 مئی 2017 کوسی پی ایس حیدرآباد ٹیم نے کرنول ٹیم کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔اس میں دونوں ٹیموں نے اپنے دعوتی تجربات شیئر کیے، اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں ایک دوسرے سے صلاح ومشورہ کیا۔
■ کولمبیا یونیورسٹی ، امریکا کا ایک پروگرام ہے، جس کے تحت مختلف زبانیں سکھائی جاتی ہیں۔ سکھائی جانے والی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کا ایک حصہ یہ ہے کہ اہل زبان سے مختلف موضوعات پرویڈیو انٹرویو لے کر ان کو سیکھنے والے طلبا کو دکھایا جائے تاکہ وہ اہل زبان کی طرح زبان کو استعمال کرنا سیکھ سکیں۔ اس کے تحت عید الفطر اور شب برأت کے موضوع پر ایک ڈاکومینٹری فلم بنائی گئی ہے، جو ان طلبا کو دکھائی جائے گی۔ اس کے لیے 11 مئی 2017 کی شام کو صدر اسلامی مرکز اور سی پی ایس چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم اورمولانا فرہاد احمد سےاردو زبان میں ویڈیو انٹرویولیا گیا۔ آخر میں انٹرویورمسٹر عامر اور ان کی ٹیم کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سٹ دیا گیا۔
■ مسٹر سترتھا سہارا(Sutirtha Sahara)فری لانس صحافی ہیں، اوربی بی سی، ڈچ ٹی وی اینڈ ریڈیو، دی گارجین، نیوزڈیلی(News Daily) کے لیے لکھتے ہیں۔ انھوں نے 12 مئی 2017 کو تین طلاق کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کے بعد ان کو صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کا ایک سیٹ دیا گیا۔
■ گڈورڈ بکس (دہلی) کو نیدر لینڈ کے ایمسٹرڈم ایرپورٹ کے قریب کے ایک ہوٹل سےایک ای میل موصول ہوا ہے،جو دعوہ ورک کرنے واولوں کے لیےبہت ہی حوصلہ افزا ہے ، نیز دعوت کے امکان کو بتاتا ہے۔ ای میل کے مطابق، ہوٹل انتظامیہ کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنے ہوٹل کے ہر کمرے میں مہمانوں کے لئے قرآن کی کاپی رکھیں۔ ای میل کے الفاظ یہ ہیں:
Good day, I would like to put in every single room a Quran for our guests. If there is any chance we can get them for free. We have 148 rooms in our hotel in Netherland (Holland). Kind regards (CHARITH PERERA, Housekeeping Manager, Courtyard by Marriott Amsterdam Airport)
■ 18 مئی 2017 کو ہندی اخبار، امر اجالا کے اسپیشل کرسپنڈنٹ گنجن کمار نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا. دوران انٹرویو جو باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ کوئی گورنمنٹ آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ آپ کو خود آگے بڑھ کر اپنے لیے کرنا ہوگا۔ خاص طورپر تعلیم کے شعبے میں توجہ دینی ہوگی۔انٹرویو کے بعد ان کو قرآن اور دوسری کتابیں دی گئیں۔
■ سی پی ایس چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے 19 مئی 2017 کو پیس اینڈ اسپریچوالٹی کے موضوع پردی انڈین ہائٹ اسکول(The Indian Heights School)، دوارکا، نئی دہلی، کے اسٹودنٹس کے سامنے خطاب کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد ساؤتھ کورین این جی او، انٹرنیشنل پیس یوتھ گروپ، ایچ ڈبلیو پی ایل، ریلیجن اینڈ پیس (HWPL, Religion and Peace) نے کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment