Pages

Wednesday 2 August 2017

Al Risala | September 2017 (الرسالہ،ستمبر)

4

-آدم کی سنت

5

- سائنس قرآن کی تفسیر

6

- اللہ کی رؤیت

7

- اسفل سافلین

9

- اجتماعی صبر

11

- قرآن کا مقصد ِنزول

12

- اللہ سے امید

13

- شخصیتِ انسانی

15

- اسلامی حکومت

19

- موت کا ظاہرہ

20

- جنت کا سماج

21

- انسانی تاریخ

24

- مشن کی اہمیت

25

- قبولیت میں تاخیر

26

- اللہ کی مدد

28

- مصیبت کا مثبت پہلو

29

- نا انصافی کا مسئلہ

30

- دعوت الی اللہ

32

- عمومی تائید کا دور

35

- پیغمبر اسلام کا مشن

39

- کے خلاف بغاوت

43

- قتل گاہ یا صحت گاہ

44

- انجام کو دیکھ کر

45

- ایکٹنگ، ان فولڈنگ

46

- خبرنامہ اسلامی مرکز


آدم کی سنت

آدم اور ابلیس کا قصہ قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے۔ قرآن میں اللہ رب العالمین کی زبان سے کہا گیاہے کہ آدم کو جنت سے نکالنے والا ابلیس تھا (الاعراف 27:)۔ دوسری طرف قرآن کی کئی آیتوں میں آدم کا کردار بتایا گیا ہے۔ اس معلوم حقیقت کے باوجود کہ ابلیس نے آدم کو بہکا کر جنت سے نکالا۔ آدم نے کبھی ایک بار بھی یہ نہیں کیا کہ وہ ابلیس کو دشمن بتاکر اس کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کرے، اس کے خلاف بددعا ئیںکرے۔ اس کے برعکس آدم نے جو کیا وہ صرف توبہ تھی۔ انھوں نے اللہ سے یہ دعا کی:رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ (7:23)۔یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
قرآن کے اس بیان سے ایک مسئلہ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی ثابت شدہ دشمن موجود ہو، کسی نے سازش کرکے نقصان پہنچایا ہو، تب بھی انسان کو دوسرے کے خلاف شکایت یا احتجاج نہیں کرنا ہے، بلکہ یہ سوچنا ہے کہ میں اس کی سازش کا شکار کیوں بنا۔ ایسے موقع پر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے، اپنی اس غلطی کو دریافت کرنا چاہیے کہ اس کے بھٹکنے کا سبب کیا تھا۔
اس طرح کے معاملے میں دوسرے کو برا بتانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے برعکس، اگر آدمی اپنی غلطی کو مانے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اپنی کمزوری کو دریافت کرے گا، اور اس طرح اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی اصلاح کرکے آئندہ اپنے آپ کو نقصان سے بچائے۔دوسرے کے خلاف شکایت کرنا، باعتبار نتیجہ اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے، اس کے برعکس اگر آدمی اپنی غلطی کو مانے تو اس کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی کمزوری کو شعوری طور پر جانے اور اس کی اصلاح کے ذریعہ اپنے کو درست کرلے۔ کسی کو دشمن بتاکر اس کے خلاف ہنگامہ کرنا کوئی کام ہی نہیں۔ کام صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کو مانے، اوراس کی اصلاح کرے۔
واپس اوپر جائیں

سائنس قرآن کی تفسیر

سائنس کسی کی شخصی تصنیف نہیں۔ بلکہ سائنس اسی نیچر (nature) کا مطالعہ ہے، جس کا ذکر قرآن میں بار بار آیات (signs) کے طور پر کیا گیا ہے۔ جس طرح ارض القرآن قرآن کی تاریخی تفسیر ہے، اسی طرح سائنس جزئی طور پرقرآن کی طبیعیاتی تفسیر ہے۔ قرآن اور سائنس کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان میں سے ایک کتاب یہ ہے:
The Bible, the Quran, and Science by Dr. Maurice Bucaille (1976)
قرآن میں بہت سے ایسے حوالے آئے ہیں، جو قرآن اور سائنس اور دونوں کا مشترک موضوع ہیں۔ مثلاً کائنات کا آغاز کیسے ہوا۔ قرآن میں اس کا حوالہ مختصر طور پر ان الفاظ میں آیا ہے: أوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30) ۔ سائنس میں اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اسی مطالعے کا ایک حصہ وہ ہے جس کو دی بگ بینگ تھیری (The Big Bang theory) کہاجاتا ہے۔
اسی طرح سائنس نے بہت ساری چیزیں دریافت کی ہیں، جو بالواسطہ طور پر قرآن کے لیے کار آمد ہیں۔ مثلاً پیغمبر موسیٰ کے ہم عصر فرعون (Merneptah) کی لاش مصر کے ایک اہرام میں دریافت ہوئی تو یہ سوال تھا کہ اس کی تاریخ کا تعین کیسے کیا جائے۔ یہاں یہ بات سائنس کے دریافت کردہ ایک طریقہ کار کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے اپلیکیشن (application)کے ذریعہ معلوم ہوئی۔
علم سائنس کا یہ پہلو خود قرآن میں پیشگی طور پر بتا دیا گیا تھا۔ قرآن کی وہ آیت یہ ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقّ(41:53) ۔ مستقبل میں ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی رؤیت

حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے، جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ اس حدیث کا ایک جزء یہ ہے: أن تعبد اللہ کأنک تراہ، فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک (صحیح البخاری، حدیث نمبر50)۔ یعنی تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
اس حدیث میں عبادت کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ حدیث پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے اگرچہ براہ راست اللہ کی رؤیت ممکن نہیں ، لیکن انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شِبہہ رؤیت کے درجے میں اللہ کو پاسکے۔ رویت اور شِبہہ رؤیت کے درمیان اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے فرق ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔
کسی آدمی کو اللہ کی شِبہہ رؤیت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ ہے اللہ کی تخلیق میں غور وفکر کرنا۔ اللہ اپنی ذات کے اعتبار سے اگرچہ ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہے۔ لیکن اپنی صفات کے اعتبار وہ اپنی تخلیقات میں پوری طرح نمایاں ہے۔ تخلیق گویا خالق کی معرفت کا آئینہ ہے۔ جس نے تخلیق کو دیکھا، اس نے گویا خالق کو دیکھ لیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی نے آرٹ کو دیکھا تواس نے گویا آرٹسٹ کو دیکھ لیا۔
موجودہ زمانے میں اہل سائنس نے یہ دریافت کیا ہے کہ کائنات ایک ذہین کائنات (intelligent universe) ہے۔ یہ دریافت اپنے آپ میں بتاتی ہے کہ کائنات میں ذہن کی کارفرمائی ہے۔ایسا ہے تو یقینی طور پر یہاں کوئی صاحب ذہن موجود ہے۔ ذہن کی کارفرمائی سے ذہن کا وجود ثابت ہوتا ہے، اور ذہن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک صاحب ذہن ہستی موجود ہے۔ سائنس کی زبان میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مذکورہ دریافت کے بعد خالق کا وجود پرابیبیلیٹی (probability)کے درجے میں ثابت ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسفل سافلین

قرآن کی سورہ التین میں انسان کے بارے میں ایک عمومی اعلان ان الفاظ میں آیا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ ، ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ (95:4-5)۔ یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا:
We have indeed created man in the best of mould, then We cast him down as the lowest of the low.
انسان کی ساخت بہترین ساخت ہے، یہ ایک معلوم بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کا تخلیقی نقشہ تمام دوسری مخلوقات سے بہتر صورت میں بنایا گیا ہے۔ خاص طور پر دماغ (mind)ایک ایسا عطیہ ہے جو انسان کے سوا کسی بھی مخلوق کو نہیں دیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ اسفل سافلین سے کیا مراد ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس میں انسان دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے میں کمتر درجہ میں ہے۔ انسان کی حیثیت ایک جاندار مخلوق کی ہے۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، جاندار اشیاء کی ایک ضرورت وہ ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat)کہا جاتا ہے۔ہیبیٹاٹ سے مراد وہ فطری مسکن (natural home) ہے جہاں کوئی جاندار مخلوق اپنی زندگی کے تمام تقاضوں کے ساتھ رہ سکے:
(Habitat is) the natural home or environment of an animal, plant, or other organism.
سیارۂ ارض (planet earth)کے اوپر چھوٹی بڑی بہت سی زندہ اشیاء پائی جاتی ہیں۔ ان زندہ اشیاء کی تعداد سائنسی مطالعے کے مطابق، تقریباً ایک ٹریلین ہے:
In May 2016, scientists reported that 1 trillion species are estimated to be on Earth.
مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین پر موجود زندہ اشیاء میں سے ہر ایک کا ہیبیٹاٹ یہاں موجود ہے۔ مثلاً مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، پانی مچھلی کا ہیبیٹاٹ ہے۔ چناں چہ خالق نے مچھلیکے ساتھ اس کا ہیبیٹاٹ دریا اور سمندر کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مگر اس دنیا میں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کا ہیبیٹاٹ یہاں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں کبھی فل فِلمینٹ (fulfilment)نہیں ملتا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو احسن تقویم کے اعتبار سے ، احسن ہیبیٹاٹ درکار ہے۔ موجودہ دنیا کی محدودیتوں (limitations)کی وجہ سے یہاں احسن ہیبیٹاٹ نہیں بن سکتا۔ اس لیے خالق نے ایسا کیا کہ موجودہ دنیا میں انسان کو بقدر ضرورت مسکن عطا کیا،اور موت کے بعد کی ابدی زندگی میں اس کے لیے اس کی حقیقی طلب کے مطابق، احسن ہیبیٹاٹ کا انتظام کیا۔ اسی احسن ہیبیٹاٹ کا نام جنت (Paradise)ہے۔ یہی مطلب ہے احکم الحاکمین (the best of the judges)کا۔ یعنی اعلیٰ انصاف کا تقاضا تھا کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق ایک احسن ہیبیٹاٹ دیا جائے۔ اس لیے خالق نے انسان کے لیے جنت کو اس کا ہیبیٹاٹ بنایا۔
٭ ٭٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایک نابینا شاعر کی نعتیہ نظم ہے۔ اس کا ایک شعر یہ ہے:
بصارت کھوگئی تو کیا بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
اس شعر میں عجیب درد اور عجیب گہرائی ہے۔ مگر ایسا شعر صرف ایک ایسا شخص ہی کہہ سکتا تھا، جس نے اپنی دونوں آنکھیں کھودی ہوں۔ جس شخص کی دونوں آنکھیں روشن ہوں اس کی زبان سے ایسا شعر نکل نہیں سکتا۔
اس دنیا کا عجیب نظام ہے۔ یہاں کھونے والا بھی پاتا ہے۔ بلکہ اکثر کھونے والا شخص اس سے زیادہ پالیتا ہے جتنا کوئی بظاہر پانے والا شخص پائے ہوئے ہو۔
(ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

اجتماعی صبر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:المؤمن الذی یخالط الناس، ویصبر على أذاہم، أعظم أجرا من المؤمن الذی لا یخالط الناس، ولا یصبر على أذاہم (ابن ماجہ، حدیث نمبر 4032) ۔ یعنی وہ مومن جو لوگوں کے درمیان رہتا ہے، اور ان کی اذیتوں پر صبر کرتا ہے، وہ زیادہ اجر پاتا ہے اس مومن سے جو لوگوں کے درمیان نہیں رہتا، اور لوگوں کی اذیتوں پر صبر نہیں کرتا۔
اس حدیث میں انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے فرق کو بتایا گیاہے۔ ایک مومن وہ ہے جو نماز و روزہ جیسے ذاتی اعمال کرتا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں جب تک وہ لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہو تو اس کو ایسے واقعات پیش نہیں آئیں گے جو اجتماعی زندگی میں کسی کو پیش آتے ہیں۔ مثلاً اس کی انا(ego)پر ضرب لگنا۔ اس کو کسی سے ایسی بات سننے کا تجربہ ہونا، جو اس کو افنڈ (offend) کرنے والا ہو۔ اس کو کبھی ایسا سابقہ پیش نہیں آئے گا، جب اس کو یہ محسوس ہو کہ اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس کو لوگوں کی طرف سے کسی اذیت کا تجربہ پیش نہیں آئے گا۔ وہ ایک معتدل زندگی گزارے گا۔ اس کو کبھی کسی سے شکایت نہ ہوگی۔ مگر اس قسم کی زندگی کا درجہ اللہ کے یہاں کم ہے۔
اس کے برعکس معاملہ اس مومن کا ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ فطری طور پر ایسا ہوگا کہ کبھی اس کو محسوس ہوگا کہ مجھ کو نظر انداز کیا جارہا ہے، کبھی اس کو محسوس ہوگا کہ اس کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جارہا ہے، کبھی وہ کسی کی بات پر افنڈ (offend) ہوجائے گا، کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے گا جو اس کو اپنی عزت نفس کے اعتبار سے بظاہر ناقابل برداشت محسوس ہوگا، کبھی اس کو کسی سے انا کامسئلہ (ego clash) پیش آجائے گا، وغیرہ۔اس کے باوجود وہ اللہ کی خاطر اعلیٰ ایمانی روش پر قائم رہے گا۔ گویا کہ وہ اذیتوں کےباوجودایک بے شکایت (complaint-free) انسان بنارہے گا۔
ان دونوں قسم کے انسانوں میں سے دوسرے انسان کا درجہ اللہ کے یہاں بہت بڑا ہے۔ کیوںکہ وہ لوگوں کی طرف سے پیش آنے والی اذیت کے باوجود نارمل طریقے سے ایمان و اسلام پر قائم رہا۔دوسروں کی طرف سے اذیت پیش آنے کے باوجود اعتدال پر قائم رہنا، سادہ بات نہیں۔ ایسا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایمان و اسلام کے اعتبار سے ایک تیار ذہن (prepared mind) ہو۔ وہ شعوری طور اس حقیقت کو جانتا ہو کہ اجتماعی زندگی میں لازماً خلافِ مزاج باتیں پیش آتی ہیں۔ مگر اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی مکمل طور پر بے شکایت انسان بن جائے۔
یہ اعلیٰ انسان وہ ہے جو آرٹ آف مینجمنٹ (art of management) کو جانتا ہے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس طرح غیر معتدل واقعہ کو مینج کرکے معتدل واقعہ بنایا جائے۔ جو یہ جانتا ہے کہ کس طرح منفی تجربہ کو مثبت تجربہ میں کنورٹ (convert) کیا جائے۔ جو اس راز سے واقف ہے کہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کے پیش آنے پر آدمی فوراً ہی ان کو بھلا دے، وہ ان سے کوئی اثر قبول نہ کرے۔
ایسا انسان وہ ہے جو یہ جانے کہ ایمانی زندگی میں یہ کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اس کو اپنے اوپر نہ لیا جائے، بلکہ اسی وقت اس کو اللہ کے خانے میں ڈال دیا جائے۔ خلاف مزاج تجربہ پیش آنے کی صورت میں وہ یہ کہہ سکے — یہ اللہ کا معاملہ ہے، یہ میرا معاملہ نہیں۔ جب آپ کے ساتھ کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اس کو منفی معنی (negative sense) میں نہ لیجیے، بلکہ اس کو ایک موقع (opportunity) کے طور پر دیکھیے۔ یہ موقع کہ فرشتوں (کراماً کاتبین) نے آپ کے ریکارڈ میں لکھا کہ یہ وہ انسان تھا جو اللہ کی خاطر ہر حال میں صبر و رضا کے اصول پر قائم رہا۔ ایسے انسان کو اللہ کے یہاں النفس المطمئنۃ (الفجر 27:) کا درجہ دیا جائے گا۔ یعنی عقد نفسی سے پاک انسان(complex-free soul) کا درجہ۔ یہی وہ انسان ہے کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے لیے جنت کے دروازے اپنے آپ کھلتے چلےجائیں گے،حتی کہ کوئی دروازہ اس کے لیے بند نہ رہے گا۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا مقصد ِنزول

ایک صاحب نے قرآن کا مقصدِ نزول ان الفاظ میں بیان کیا ہے:کہا جاتا ہے کہ قرآن کا مقصد ِنزول یہ ہے کہ سوسائٹی کے کسی بھی فرد پر ظلم نہ ہو، اور کوئی مظلوم دادرسی اور فریاد سے محروم نہ ہو۔ کوئی شخص بھوکا نہ سوئے، اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں میں ایسا تفاوت نہ رہے کہ ایک کی حالت یہ ہو کہ اسے اپنے مال و زر کے انبار کے حساب کی فرصت نہ ہو اور دوسرا نانِ جوین کو ترسے۔ایک کے پاس کوٹھیوں اور بنگلوںکی بہتات ہو تو دوسرے کو سر چھپانے کے لیے جھونپڑی بھی میسر نہ ہو۔ قرآن کریم کے نزول کا مقصد مختصراً یہ ہے کہ انفرادی زندگی میں اس کی تعلیمات پر عمل ہو اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ اور جب تک اس پر عمل نہیں ، اس وقت تک ہمارا، قرآن کریم پر ایمان لانے اور اس کی تعظیم و تکریم کرنے کا دعوی بے جان ہے۔ (مدیکارمحمد بشیر، وانمباڑی)
قرآن کا مقصد نزول کیا ہے۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میں ڈھونڈنا چاہیے۔ یہ ایک غیر علمی طریقہ ہے کہ آدمی خود اپنے ذہن میں ایک نقشہ بنائے اور اس کو قرآن کے اوپر چسپاں کردے۔اس پہلو سے قرآن کو دیکھا جائے تو قرآن میں اس کا جواب ان الفاظ میں ملتا ہے:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا (25:1)۔ اس آیت کےمطابق قرآن کے نزول کا مقصد انذار (warning) ہے۔ یعنی یہ کہ انسان اپنی زندگی کو صحیح نشانے پر لگائے۔ یہ صحیح نشانہ آخرت کی تعمیر ہے۔ یہ نشانہ حقیقت واقعہ کی بنیاد پر بنتا ہے۔ تخلیقی نقشہ کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان ایک محدود مدت تک رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ آخرت کی دنیا میں چلا جاتا ہے، جو کہ اس کی ابدی قیام گاہ ہے۔ موجودہ دنیا میں جو مسائل ہیں، وہ مسائل نہیں ہیں، بلکہ وہ چیلنج ہیں۔ یہ چیلنج اس لیے ہیں کہ انسان کو متحرک کیا جائے۔ انسانی زندگی میں مسائل اس لیے پیش آتے ہیں کہ وہ اس کے لیےمحًرک (incentive) کا کام کریں۔ تخلیق کے مطابق ،موجودہ دنیا جدو جہد کے اصول پر قائم ہے۔ اگر جدوجہد نہ ہو تو دنیا میں ہر طرف جمود (stagnation) کا ما حول قائم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

اللہ سے امید

ایک عرب عالم ناصر عبد الغفور نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک مضمو ن میں لکھا ہے کہ سلف کے نزدیک زیادہ امید والی آیت کے معاملے میں اختلاف ہے۔ امام سیوطی نے پندرہ یا سولہ قول ذکر کیا ہے: اختلف السلف فی أرجى آیة على أقوال کثیرة عد منہا الإمام السیوطی خمسة عشر أو ستة عشر قولا ( أرجى آیة فی القرآن الکریم [ملتقی اہل التفسیر]) ۔
اسی طرح احادیث کے ذخیرے میں بھی ایسی حدیثیں ہیں، جن کو حدیث رجاء کہا جاسکتا ہے۔ انھیں میں سے ایک حدیث قدسی ہے۔ المسند الموضوعی الجامع للکتب العشرة میں مولف کتاب نے باب سعة رحمة اللہ ومغفرتہ(1/107)کے تحت مختلف کتابوں سےاس حدیث کی 24 روایتوں کو نقل کیا ہے۔ ان میں سےصحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں:لما قضى اللہ الخلق کتب فی کتابہ فہو عندہ فوق العرش إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)۔اس حدیث میں غضب اور رحمت کے جو الفاظ آئے ہیں، اس کی شرح میں الحسین بن محمد عبداللہ الطیبی (وفات 743:ھ)نے کہا: وأنہا تنالہم من غیر استحقاق، وأن الغضب لاینالہم إلا باستحقاق (عمدة القاری شرح صحیح البخاری15/110)۔ یعنی اللہ کی رحمت انسان کو بغیر استحقاق کے ملتی ہے، اور غضب صرف ان کو ملتا ہے جو اس کا مستحق ہو۔
اس حدیث قدسی میں اہل ایمان کے لیے بہت بڑی امید کا سامان ہے۔ کیوں کہ جب اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے تو بندہ یہ امید کرسکتا ہے کہ اس کو اللہ کی مغفرت بلااستحقاق بھی مل سکتی ہے۔ یہ پہلو ایک مومن کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اس حدیث قدسی کے حوالے سے اللہ سے مغفرت کی ایسی دعا کرے، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہو۔ غضب کی حد ہوسکتی ہے، لیکن رحمت کی کوئی حد نہیں۔ کوئی شخص اللہ سے غضب نہیں مانگے گا، مگر رحمت ایک ایسی چیز ہے جس کو ہر آدمی اللہ سے مانگ سکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شخصیتِ انسانی

قرآن کی ایک آیت وہ ہے جس کو آیتِ امانت کہا جاتا ہے۔ یہاں اس سلسلے کی دو آیتوں کا ترجمہ دیا جاتا ہے: ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزادے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے۔ اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ (الاحزاب72-73:)
اس آیت میں انسان کی خصوصی تخلیق کے معاملے کو بتایا گیا ہے۔ امانت کا لفظی مطلب ٹرسٹ(trust) ہے۔اس کائنات میں اللہ کامل معنوں میں اختیار رکھتا ہے، اختیار میں کوئی اللہ کا شریک نہیں۔ اس اختیار کا ایک بہت چھوٹا حصہ انسان کو خصوصی طور پر دیا گیا ہے۔ انسان کو یہ اختیار بطور حق نہیں دیا گیا ہے، بلکہ وہ انسان کو بطور ذمہ داری دیا گیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اختیار کے باوجود اپنے آپ کو بے اختیار بنا لے، وہ خود عائد کردہ پابندی (self-imposed discipline) کا نمونہ بنے۔یہی اس دنیا میں انسان کا ٹیسٹ ہے، اور اسی ٹیسٹ میں پورا اترنے پر انسان کے لیے جنت مقدر کی گئی ہے۔
امانت کا یہ معاملہ ایک بے حد نازک معاملہ تھا۔ اسی لیے زمین و آسمان اس کا حامل بننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے زبان حال سے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کردیا۔ اس کےبعد یہ ذمہ داری خالق کی طرف سے انسان کو عطا ہوئی۔ تاہم یہ ایک بے حد نازک ذمہ داری تھی، کیوں کہ عملاً یہ بے حد مشکل تھا کہ انسان کامل معنوں میں اس ذمہ داری پر پورا اترے۔
خالق نے اس معاملے میں رعایت کا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ جو انسان توبہ کا ثبوت دے اس کے ساتھ خالق خصوصی رحمت کا معاملہ فرمائے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیث قدسی میں ان الفاظ میںبیان کی گئی ہے:إن رحمتی غلبت غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194)
مذکورہ آیت بتاتی ہے کہ انسان اگر توبہ کا ثبوت دے تو خالق کے نزدیک وہ قابل معافی قرار پائے گا۔ توبہ کا لفظی مطلب ہے لوٹنا۔ یعنی غلطی کے بعد شدید ندامت کا احساس ہونا۔اپنی غلطی کا نہایت شدید انداز میں اعتراف کرنا۔ غلطی کرنے کے بعد شدید انداز میں اصلاح کا طالب بننا۔ اگر انسان کے اندر یہ شدید اعتراف پیدا ہوجائے تو وہ خالق کے سامنے بندے کی طرف سے ایک قابل قبول عذر بن جائے گا۔ خالق اپنی رحمت کے ساتھ بندے کی طرف دوبارہ لوٹ آئے گا۔ یہی مطلب ہے اس بات کا کہ — اللہ کے غضب کے اوپر اس کی رحمت غالب ہے۔
توبہ در اصل ندامت (repentance) کا دوسرا نام ہے۔ غلطی کرنے کے بعد جب انسان کے اندر شدید ندامت پیدا ہوتو وہ اس کی پوری شخصیت کے لیے ایک دھماکہ کے ہم معنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد آدمی کا پورا وجود ہل جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ ہمالیائی اسپرٹ کے ساتھ جاگ اٹھتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نیا عمل (process) جاری ہوتا ہے، جو اس کی پوری شخصیت کو ایک نئی شخصیت بنا دیتا ہے۔
اس قسم کی توبہ اپنے آپ میں ایک اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ ایسی توبہ انسان کو پہلے سے بھی زیادہ قابل قدر بنا دیتی ہے۔ اس کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ اس کے بعد انسان کے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب اس کا ذکر اعلیٰ ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کی دعاء اعلیٰ دعا ءبن جاتی ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت (creative personality) جاگتی ہے۔ اس قسم کی توبہ جب کسی انسان کو حاصل ہوجائے تو وہ پہلے سے بھی زیادہ رب العالمین کے لیے قابل قبول انسان بن جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلامی حکومت

موجودہ زمانے میں اسلامی حکومت کا تصور قرآن و سنت کی تعلیم کی بنیاد پر نہیں پیدا ہوا۔ بلکہ وہ اسی چیز کاایک ظاہرہ ہے جس کو قرآن میں مضاہات (التوبہ 30:) کہا گیا ہے۔ یعنی خارجی ماحول کے اثر سے اسلام کی تشریح و تعبیر اس طرح کرنا کہ وہ خارجی معیار کے مطابق نظر آئے۔
قدیم زمانےمیں حکومت شخصی حکومت کے ہم معنی ہوا کرتی تھی۔ اس تصور حکومت کا اظہار خاندانی بادشاہت (dynasty)کی صورت میں ہوا۔ موجودہ زمانےمیں سوشلزم اور ڈیماکریسی کے اثر سے نظریاتی حکومت کا تصور پیدا ہوا۔ پہلے یہ تھا کہ ایک شخص بادشاہ کی نسل سے تعلق رکھنے کی بنا پر بادشاہت کا دعویدار ہوا کرتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ اولوالعزم لوگوں نے پولیٹکل آئڈیالوجی (political ideology) کے ذریعے حکومت کے لیے لڑائی کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں مختلف قسم کی پولیٹکل آئڈیالوجی وجود میںآئی۔
نظریاتی حکومت کا یہ تصور موجودہ زمانے میں لوگوں کو زیادہ اہم معلوم ہونے لگا۔ اس کے اثر سے مسلم مفکرین نے بھی اسلام کو انھیں اصطلاحات کی شکل میں بیان کرنا شروع کیا۔ انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے۔ اور اسلام کا نظام حکومت سب سے بہتر نظام حکومت ہے۔ اس لیے اہل اسلام کو یہ حق ہے کہ وہ اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے اس دنیا میںاسلام کی حکومت قائم کریں۔ یہ نظریہ قرآن کے نام پر پیش کیا گیا۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مضاہات (imitation) تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت کا تصور ایک مبتدعانہ تصور (innovated concept) ہے۔ قرآن میں کوئی بھی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ اقم دولۃ الاسلام (اسلامی حکومت قائم کرو)، یا نفذ الشریعۃ الاسلامیۃ (اسلامی شریعت نافذ کرو)۔ یہی حال احادیث کے پورے ذخیرے کا ہے۔ پورے ذخیرۂ حدیث میں کوئی بھی حدیث رسول اس مفہوم کی نہیں ہے کہ اے مسلمانو، تمھارا مشن یہ ہے کہ تم اسلام کی بنیاد پر سیاسی انقلاب لائو یاحکومت قائم کرو۔
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کے معاملے میں اسلام کا نشانہ کوئی مخصوص نظامِ حکومت قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ سیاست کے معاملے میں اسلام کا اصل نشانہ صرف تمکین فی الارض (الحج41:)ہے۔ تمکین سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے الفاظ میںسیاسی استحکام (political stability) کہا جاتا ہے۔ سیاسی نظام فارم کے اعتبار سے جو بھی ہو ، اگر اس کے ذریعے سیاسی استحکام قائم ہوجائے تو اہل اسلام کے لیے وہ قابلِ قبول ہوگا۔ خواہ بظاہر اس کی عملی صورت جوبھی ہو۔
سیاست کے بارے میں اس تصور کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد جو نظامِ حکومت قائم ہوا،وہ فارم کے اعتبار سے کوئی واحد سیاسی فارم پر مبنی نظام نہ تھا۔ خلیفۂ اول کی تقرری ایک محدود شورائی اصول کے مطابق ہوئی۔ خلیفۂ ثانی کی تقرری نامزدگی (nomination)کے اصول پر ہوئی۔ خلیفۂ ثالث کی تقرری ایک بورڈ کے ذریعہ انجام پائی۔ خلیفۂ چہارم کی تقرری کسی متفق علیہ اصول کی بنیاد پر نہیں ہوئی، اسی لیے بہت جلد بغاوت کی صورت پیدا ہوگئی۔عمر بن عبد العزیز کو اگر خلیفۂ پنجم مانا جائے تو ان کی تقرری وقت کے سلطان (سلیمان بن عبد الملک)کی وصیت کے مطابق ہوئی، جو بوقت وفات ایک لفافے میں بند کردی گئی تھی۔
وہ دور جس کوخلافت راشدہ کہاجاتا ہے۔ وہ تقریباً تیس سال قائم رہا۔ اس کے بعد مسلم دنیا میں خاندانی حکومت (dynasty) قائم ہوگئی۔ جو اگلے ہزار سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ خاندانی حکومت کا یہ نظام جو بلاشبہ شورائی ماڈل (الشوریٰ38:)کے مطابق نہ تھا۔لیکن اس دور کے تمام علماء نے اس خاندانی نظام کو عملاً تسلیم کرلیا۔ حتی کہ تمام علماء کے اتفاق رائے سے یہ مسئلہ بن گیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا حرام ہے۔ خواہ وہ کسی کے نزدیک بظاہر’’حکومتِ فاسقہ‘‘ کیوں نہ ہو۔ صحیح مسلم کے شارح امام النووی نے اپنے زمانے کے علماء کے متفقہ موقف کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وأما الخروج علیہم وقتالہم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین (شرح النووی علی صحیح مسلم،بیروت، 1392ھ، 12/229)۔ یعنی اور جہاں تک ان کے خلاف خروج یا ان سے قتال کا معاملہ ہے وہ مسلمانوں کے اجماع سے حرام ہے۔خواہ (بظاہر) وہ فاسق اور ظالم کیوں نہ ہوں۔
تسلیم کرنے والے اس گروہ میں صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین بھی شامل تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خاندانی حکومت کانظام اگر چہ شورائی ماڈل کے مطابق نہ تھا۔ لیکن اس کے ذریعے مطلوب سیاسی استحکام حاصل ہورہا تھا۔ اس کے ذریعے امن کی حالت قائم ہوگئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ اس کے تحت ہر قسم کی دینی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکیں۔
ا س معاملے میں علماء کے اس متفق علیہ مسلک کا سبب کیا تھا۔ یہ سبب پرکٹیکل وزڈم کے اصول پر قائم تھا۔ یعنی زیادہ بڑی برائی (greater evil) سے بچنے کے لیے چھوٹی برائی (lesser evil) پر راضی ہوجانا۔ اسی حقیقت کو فقہاء اھون البلیتَین کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں۔یعنی بڑی مصیبت سے بچنےکے لیے چھوٹی مصیبت پر راضی ہوجانا۔
مگراسلامی حکومت کے مبتدعانہ تصور نے موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا کہ اتنا بڑا نقصان اسلام کی پوری تاریخ میں شاید کسی نظریہ نے نہیں پہنچایا۔
اسلامی حکومت کے اس خود ساختہ تصور کا یہ نتیجہ ہوا کہ مسلمانوں کا دینی نشانہ بدل گیا۔ قرآن و سنت کے مطابق، اہل اسلام کا دینی نشانہ اصلاً صرف ایک تھا، تزکیۂ ذات (self purification)۔ لیکن اس نام نہاد انقلابی نظریہ نے اس کے بجائے مسلمانوں کو یہ نشانہ دے دیا کہ وہ سیاسی حکمرانوں سے لڑ کر ان سے ’’اقتدارکی کنجیاں‘‘ چھین لیں۔ اور پھر اقتدار کے منصب پر قبضہ کرکے اپنے مفروضہ نظام کو عملاً قائم کریں۔ اس کا معکوس نتیجہ فطری طور پر یہ ہوا کہ اقتدار کی سیٹ پر قبضہ تو نہ ہو سکا، البتہ مختلف قسم کی برائیاں مسلم معاشرے میں پھیل گئیں۔ مثلا دینی نشانہ کا بدل جانا، مسلم امت کا دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجانا، اسلام کی پرامن تصویر کے بجائے، پر تشدد تصویر (violent image) کا بن جانا، وغیرہ۔
مزید یہ کہ اس نام نہاد سیاسی تشریح کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے قرآن کے سنجیدہ مطالعہ کا مزاج ختم ہوگیا۔ اب مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر غلط ذہن عام ہوگیا ہے۔ وہ قرآن کی آزادانہ تفسیر کو درست تفسیر سمجھنے لگے۔ قرآن میں طاغوت شیطان کے معنی میں استعمال ہوا تھا، اس کو سیاسی لیڈر کے معنی میں لیا جانے لگا۔ قرآن میں حُکم کا لفظ فوق الطبیعی اقتدار (super-natural power) کے معنی میں استعمال ہوا تھا۔ اب اس کو سیاسی اقتدار (political power) کے معنی میں لے لیا گیا۔ قرآن میں دین کا لفظ مذہب کے معنی میں استعمال ہوا تھا، اس کو اسٹیٹ کے معنی میں لے لیا گیا، وغیرہ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
اخوان المسلمون کی تحریک کو مصر اور دوسرے عرب ملکوں میں زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ اخوانی تحریک کے مختلف شعبے تھے۔ ان میں سے ایک فوجی شعبہ تھا جس کو جناح عسکری کہا جاتا تھا۔ اخوان کے جناح عسکری کے سربراہ حسن دوح (Hasan Dawh) تھے۔
موجودہ زمانہ میں جو اسلامی تحریکیں اٹھیں، ان سب کا یہی حال رہا ہے۔ کسی میں جناح عسکری عملاً قائم تھا، اور کسی میں صرف ذہنی طور پر وہ پایا جاتا تھا۔تحریکوں کی اس عسکریت کا سبب یہ ہے کہ وہ ’’دشمنان اسلام‘‘ کے رد عمل میں اٹھیں۔ کوئی یہودیوں کی خلاف، کوئی انگریزوں کے خلاف، کوئی فرانسیسیوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں مشترک طور پر نفرت اور تشدد کا ذہن پایا جاتا ہے۔
موجودہ زمانہ کی ان تحریکوں میں سے کوئی تحریک ‘‘جناح دعوتی‘‘ نہ تھا۔اگر یہ تحریک حقیقی معنوں میں دعوتی محرک کے طور پر اٹھتیں تو نہ صرف ان کے یہاں جناح دعوتی موجود ہوتا بلکہ ان کے یہاں دعوت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی۔ اور پھر ان کا مزاج نفرت اور تشدد کے بجائے محبت اور امن کا بنتا۔دعوت کا کام دلوں کو جیت کر اور ذہنوں کو مطمئن کرکے ہوتا ہے، اس لیے داعی کے اندر دوسروں سے محبت اور خیر خواہی کی نفسیات پیدا ہوتی ہے۔ (ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

موت کا ظاہرہ

موت کا ظاہرہ (phenomenon) ایک انتہائی انوکھا ظاہرہ ہے۔ ہر انسان جو اس زمین پر پیدا ہوتا ہے، وہ ضرور ایک دن مر جاتا ہے۔ خواہ بظاہر وہ کتنا ہی تندرست ہو، اس کے پاس کتنے ہی زیادہ اسباب کی کثرت ہو۔ تاریخ میں ایسے انسان پیدا ہوئے، جو اپنے آپ کو موت سے بچانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی کوشش مکمل طور پر ناکام ہوگئی۔ ساری کوشش کے باوجود وہ ایک دن اسی طرح مرگیے، جس طرح اس دنیا میں دوسرے انسان مررہے ہیں۔
یہ واقعہ قرآن کی صداقت کا ایک قطعی ثبوت ہے۔قرآن میں موت کے بارے میں تین بار یہ الفاظ آئے ہیں:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (3:185, 21:35, 29:57)۔ یعنی ہر انسان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔اس آیت میں قرآن نے یہ اعلان کیا کہ اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر مرد اور ہر عورت کو ضرور ایک دن مرنا ہے۔ اس میں کسی بھی فرد کا کوئی استثنا (exception) نہیں ۔ خواہ وہ بادشاہ ہو یا دولت مند یا کوئی بہت بڑا ڈاکٹر۔
یہ پوری انسانی تاریخ کے بارے میں ایک عمومی ریمارک ہے۔ وہ پوری تاریخ انسانی کا احاطہ کیےہوئے ہے۔ تاریخ کے بارے میں قرآن کا یہ ریمارک پوری تاریخ کا ایک عمومی واقعہ بن گیا۔ موت کے بارے میں اس قسم کا بیان کسی بھی کتاب میں موجود نہیں، نہ مذہبی کتاب میں اور نہ غیرمذہبی کتاب میں۔ جو بھی مرد یا عورت اس زمین پر پیدا ہوئے، وہ مقرر مدت کے اندر مر کر اس دنیا سے چلے گیے۔
ایسا ایک عمومی بیان جو عملاً پوری تاریخ کا ایک ثابت شدہ واقعہ بن جائے، یہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اس قول کا قائل اللہ رب العالمین ہے، وہ ہستی جس کے ہاتھ میں انسان کی موت بھی ہے اور زندگی بھی۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی اپنے آپ ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اللہ رب العالمین کی کتاب ہے۔ یہ واقعہ خدا کے وجود کا ثبوت بھی ہے، اور قرآن کی صداقت کا ثبوت بھی۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا سماج

قرآن میں جنت کو دارالسلام (یونس25:) کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی امن کا گھر (home of peace)۔اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت حسن رفاقت کا سماج (النساء69:) ہوگا۔ یعنی اچھے تعلق (good relationship) کا سماج۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں داخلے کی شرط کیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں ، جو جنت کی معیاری دنیا میں داخل کیے جائیں گے۔
جنت میں داخلے کا فیصلہ قوم یا گروہ کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ افراد کی بنیاد پر ہوگا۔ پوری تاریخ سے ایسے افراد منتخب کیے جائیں گے، جن کے اندر جنت والے اخلاق پائےجائیں۔وہ افراد جن کا دل نفرت کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ افراد جو دوسروں کے ساتھ کامل امن کے ساتھ رہ سکیں۔ وہ افراد جن کے اندر دوسروں کے بارے میں خیرخواہی کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ وہ افراد جو شکایت کی نفسیات سے مکمل طور پر خالی ہوں۔ جو تمام انسانوں کو اپنا سمجھیں، کوئی انسان ان کو غیر دکھائی نہ دے۔ وہ افراد جو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کے حامل ہوں۔ ایسے افراد کے مجموعے سے جو معیاری دنیا بنے گی اسی کو جنت کہا گیا ہے۔
اسلامی تحریک کا نشانہ اسٹیٹ کو اسلامائز کرنا (Islamization of state) نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی تحریک کا نشانہ افراد کا اسلامائزیشن ہے۔ اسلامی تحریک کا نشانہ دنیا میں معیاری سماج بنانا نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا نشانہ یہ ہے کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جن کےمجموعہ سے آخرت میں معیاری جنت کی تشکیل کی جاسکے۔ جنت اعلیٰ سرگرمیوں کی جگہ ہے۔جنت میں داخلہ صرف ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کیا ہو کہ وہ جنت کی اعلیٰ سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل ہیں۔جنت میں وہ تمام مثبت سرگرمیاں اپنی کامل صورت میں پائی جائیں گی، جو دنیا میں پائی جاتی تھیں۔ جنت میں داخلہ صرف ان افراد کو ملے گا، جنھوں نے دنیا کی سرگرمیوں کے دوران اپنے آپ کو ان اعلیٰ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا اہل ثابت کیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

مادی کائنات، انسانی تاریخ

اللہ نے دو دنیائیں بنائی، ایک مادی دنیا اور دوسری انسانی دنیا۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں دنیاؤں کے ڈیولپمنٹ کے لیے اللہ نے پراسس (process) کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی تدریج کے تحت ڈیولپ کرتے ہوئے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچانا۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ انسان مطالعہ کرکے تاریخ کا علم حاصل کرسکے۔ اور اس طرح تخلیق کی معرفت سے آگاہ ہو۔
مادی کائنات کی تخلیق کا معاملہ حسب ذیل آیت کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے: ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ (41:11)۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔ اور وہ دھواں تھا۔ پھر اس نے آسمان اور زمین سے کہا کہ تم دونوں آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ دونوں نے کہا کہ ہم خوشی سے حاضر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مادی دنیا کواس معاملے میں ذاتی اختیار حاصل نہ تھا۔ خالق نے جس طرح مادی دنیا کو ہدایت دی، ٹھیک اس کے مطابق مادی دنیا چلتی رہی۔ یہاں تک کہ اپنے کمال تک پہنچی۔ اس عمل کا آغاز بگ بینگ (الانبیاء30:) سے شروع ہوا۔ اور نظامِ شمسی کے وجود میں آنے پر مکمل ہوا۔
انسانی دنیا کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ انسان کو اللہ نے مکمل آزادی دی تھی۔ اس لیے یہاںاللہ نے انسان کی تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، تاریخ کو مینج کرنا، اور اس کو مطلوب نقطۂ کمال تک پہنچانا۔
اللہ کے منصوبہ کے مطابق، انسانی تاریخ مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ مثلاً طوفانِ نوح کے بعد انسانی آبادی کا منتشر ہوکر ساری دنیا میں آباد ہونا، حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نئی نسل کی تیاری، رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے مذہبی جبر کے دور کو ختم کرنا اور دنیا میں آزادی کا دور لانا، وغیرہ۔ انسانی تاریخ کے حوالے سے جو کام انجام پایا اس کی آخری مثال وہ ہے جس کو علامتی طور پر جدید تہذیب (modern civilization) کہا جاسکتا ہے۔
جدید تہذیب کیا ہے۔ جدید تہذیب اصلاً یہ ہے کہ فطرت کے اندر چھپے ہوئے رازوں کو دریافت کرنا اور انسانی تاریخ کو روایتی دور سے نکال کر ٹکنالوجی کے دور تک پہنچانا۔تہذیب کا یہ دور بظاہر مادی ترقی کا دور ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ یہ ہے کہ خدا کے دین کو عالمی دعوت کے دور میں پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے جدید تہذیب موافقِ اسلام تہذیب ہے۔ جدید تہذیب اور اسلام میں کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں۔
اس دورِ تہذیب کا آغاز رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ شروع ہوا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ فطرت (nature) جو ہزاروں سال سے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی، وہ پہلی بار تسخیر کا موضوع (object of investigation) بن گئی۔ یہ انسانی تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اس عمل کا آغاز رسول اور اصحابِ رسول کےذریعہ عرب میں ہوا۔ اور پھر ترقی کرتے ہوئے وہ مغرب (West) میں اپنی تکمیل تک پہنچا۔
فطرت کی پرستش کے بجائے فطرت کو تسخیر کرو— یہ اصول پہلی بار قرآن میں بتایا گیا۔ تسخیر کا مادہ قرآن میں 9 بار استعمال ہوا ہے۔ مگر دوسرے الفاظ میں قرآن میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ غور فکر کرکے حقائق فطرت کو دریافت کرو۔ اس طرح اسلام نے انسانی تاریخ میں پہلی بار سائنسی غور و فکر (scientific exploration)کا آغاز کیا۔ یہ عمل پہلے ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں شروع ہوا۔ اس کے بعد بتدریج مغربی دنیا تک پہنچا۔
اس سائنسی عمل (scientific process) کا آغاز مسلمانوں نے کیا۔ وہ مکہ سے شروع ہوا۔ پھر وہ مدینہ اور دمشق پہنچا۔ پھر بغداد اور اندلس اس کا سینٹر بنے۔ پندرھویں صدی میں اندلس کی مسلم حکومت ختم ہونے کے بعد مسلم دنیا میں یہ پراسس عملاً موقوف ہوگیا۔
اس خاتمہ کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان اس قربانی (sacrifice) کا ثبوت نہ دے سکے جو اس عمل کے مزید تسلسل کے لیے ضروری تھا۔ اس قربانی کا ثبوت مسیحی قوموں نے دیا۔ اس بنا پر اس عمل کے دودور بن گیے۔ پہلے دور میں مسلم قوموں نے اس میں اپنا رول ادا کیا۔ دوسرے دور میں مسیحی قوموں نے اس کام کو آگے بڑھایا، اور اس کو تکمیل کی حد تک پہنچایا۔ اس قربانی سے مراد جان کی قربانی نہیں تھی بلکہ ایک لفظ میں نئی منصوبہ بندی (replanning) کا راستہ ہے۔ یعنی جب ایک طریقہ کار موثر نہ ہورہا ہو تو پیچھے ہٹ کر دوسرا طریقہ اختیارکرنا۔
قدیم زمانے میں صلیبی جنگوں (Crusades) کا واقعہ پیش آیا۔ یہ مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان طویل جنگ کا ایک سلسلہ تھا۔ اس کا آغاز 11ویں صدی عیسوی میں ہوا، اور خاتمہ 16ویں صدی عیسوی میں ہوا۔مورخین کے بیان کے مطابق اس جنگ میں مسیحی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی۔
اس شکست کے بعد مسیحی قوموں نے ایک قابل تقلید کام کیا۔ انھوں نے اس کے بعد منفی رد عمل (negative reaction) کا طریقہ اختیار نہیں کیا،بلکہ یہ کیا کہ شکست کو بھلا کر اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی (replanning) کی۔ اس نئی پلاننگ کو روحانی صلیبی جنگ (spiritual crusades) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک لمبا عمل تھا۔ جس کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی بار تہذیب (civilization) کا ایک نیا دور پیدا کیا۔
مغربی تہذیب کوئی انتقامی تہذیب نہ تھی۔ وہ کسی کے خلاف انتقامی جذبے کے تحت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ مغربی تہذیب کا وجود اس طرح ہوا کہ مغربی قوموں نے جنگ کے میدان کو چھوڑ کر فطر ت کے میدا ن میں اپنا مثبت عمل شروع کیا۔ انھوں نے نیچر میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کیا، جس کے نتیجے میں جدید سائنس وجود میں آئی۔ جدید ٹکنالوجی کی دریافت ہوئی۔ جدید صنعت ظہور میں آئی۔ دنیا کو جدید سامان حیات کا تحفہ ملا۔دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا، جب کہ تشدد کا طریقہ ایک بے نتیجہ طریقہ قرار پایا۔ اس کے بر عکس، امن کا طریقہ زیادہ موثر طریقہ کار کے طور پر ظہور میں آیا۔تاہم مسلمان اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے اس بنا پر وہ غیر دانش مندانہ طور پر مغربی تہذیب کو اپنانے کے بجائے اس کے خلاف ہوگیے۔
واپس اوپر جائیں

مشن کی اہمیت

مرد اور عورت دونوں کی ایک فطری ضرورت ہے کہ ان کا ایک قریبی ساتھی ہو۔ ایسا ساتھی جس سے وہ اپنی ہر بات کہہ سکے، اور جس پر پورا اعتماد رکھ سکے۔ مرد اور عورت دونوں اس اعتبار سے ایک دوسرے کے فطری ساتھی ہیں۔ نکاح کی صورت میں ایک مرد اور ایک عورت دونوں ایک دوسرے کے قریبی رفیق بن جاتے ہیں۔ مگر عملاً ایسا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد کچھ مدت تک دونوں کے درمیان محبت کے تعلقات ہوتے ہیں، مگر دھیرے دھیرے یہ تعلق گھٹ کر ایک ورکنگ تعلق (working relationship) بن جاتا ہے۔
یہ صورت حال مرد اور عورت دونوں کے لیے یقینا ایک ناپسندیدہ صورت حال ہے۔ نکاح کے وقت مرد و عورت، دونوں ناپختگی کی عمر (age of immaturity) میں ہوتے ہیں۔ بعد کو دھیرے دھیرے وہ وقت آتا ہے جب کہ دونوں پختگی کی عمر (age of maturity) تک پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے دور کے مقابلے میں بعد کے دور میں دونوں زیادہ تجربہ کار ، زیادہ دانش مند، زیادہ سنجیدہ، زیادہ گہری سوچ والےبن جاتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ پہلے دور میں دونوں کے درمیان زیادہ گہرے تعلقات ہوتے ہیں، اور بعد کے دور میں دونوں کے تعلقات گھٹ کر کمتر سطح پر قائم ہوجاتے ہیں۔
اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوں کا ایک مشن ہو، جو ان کی آخری عمر تک قائم رہے۔مثلا اگر دونوں اپنی دوسری مصروفیات کے ساتھ یہ طے کریں کہ ان کو یہ کوشش کرنا ہے کہ خدا کے منصوبہ کےمطابق قرآن ساری دنیا میں پہنچ جائے۔ ہر انسان اس کو اپنی قابل فہم زبان میں پڑھنے کے قابل ہوجائے۔ تو یہ ایک ایسا مشن ہوگا جو ہمیشہ جاری رہے گا، اور شوہر اور بیوی کے تعلقات کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ اس طرح یہ ہوگا کہ پہلے اگر دونوں صرف ہزبنڈ اور وائف تھے، تو اب دونوں ہزبنڈ پلس اور وائف پلس بن جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قبولیت میں تاخیر

دعا کی قبولیت میں اگر تاخیر ہو تو انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں بڑی حکمت پوشیدہ ہوسکتی ہے۔ اس معاملے میں ایک حدیث قدسی ہے، جو ان الفاظ میں آئی ہے:انَّ العبد إذا دعا ربَّہ، وہو یحبہ قال:یا جبریل:لا تعجَل بقضاء حاجة عبدی، فإنی أحبُّ أن أسمع صوتہ(مسند الحارث)۔یعنی بندہ جب اپنے رب کو پکارے، اور وہ اس کو محبوب ہو، تو اللہ جبریل سے کہتا ہے، اے جبریل ،میرے بندے کی حاجت پورا کرنے میں جلدی نہ کر، کیوں کہ مجھے پسند ہے کہ میں اس کی آواز سنوں۔
اس سے مراد سادہ طور پر آواز سننا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت بندے میں جو روحانی عمل جاری ہوتا ہے، اللہ چاہتا ہے کہ وہ عمل بندے کے اندر دیر تک جاری رہے۔ اصل یہ ہے کہ تخلیق کے نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان کے اندر ذہنی اور روحانی ارتقا کا عمل معمول کے حالات میں جاری نہیں ہوتا۔ یہ عمل صرف اس وقت جاری ہوتا ہے جب کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آئے، جوانسان کے اندرذہنی طوفان (brainstorming) کی حالت پیدا کردے۔جب ایسا ہوتا ہے تو انسانی ذہن کے تمام بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو ایسے تجربات پیش آئیں جو عام حالات میں پیش نہیں آتے۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے ذہن کا جمود (stagnation) ٹوٹے، اور اس کے اندر تخلیقیت (creativity) کا عمل بیدار ہوجائے۔ وہ منفی سوچ سے باہر آئے، اور چیزوں کو مثبت نظر سے دیکھنے لگے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ اس کے اندر چھپے ہوئے امکانات (potentials) ظاہر ہوجائیں۔ اس کے اندر وہ سوچ پیدا ہوجائےجس کو بلند سوچ (high thinking) کہا جاتا ہے۔ اب تک اگر وہ مین ( man)تھا تو اب وہ سوپر مین (superman) بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

اللہ کی مدد

قرآن میں ایک خدائی قانون کو ان الفاظ میںبیان کیا گیاہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ (22:40)۔ یعنی اور اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرے۔ بیشک اللہ زبردست ہے، زور والا ہے۔ قرآن کی یہ آیت انسانی تاریخ کے بارے میں ایک خدائی قانون کو بتاتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو کامل آزادی دی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ انسانی تاریخ کو برابر مینج بھی کرتا ہے، تاکہ تاریخ کا سفر اپنے صحیح رخ پر جاری رہے۔ مذکورہ آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے اس منصوبے میں انسان کا رول کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان تاریخ کے بارے میں اللہ کے منشا کو دریافت کرے، اور اللہ کے منصوبے کے مطابق تاریخی عمل (historical process) میں اپنا حصہ ادا کرے۔ انسان اگر ایسا کرے تو وہ اللہ کی مدد کا یقینی مستحق بن جاتا ہے۔
اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو اسلام کے دور اول میں پیش آئی۔ وہ یہ کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد اللہ تعالی نے ایسے حالات پید اکیے کہ اہل ایمان یک طرفہ شرطوں پر فریق ثانی سے صلح کرلے، اور اس طرح فریقین کے درمیان امن کا ماحول بنا کر دعوت کی پلاننگ کرے۔ اس زمانے کے اہل ایمان نے اس معاملے کو سمجھا ، اور یک طرفہ صلح کرکے فریقین کے درمیان امن کا ماحول قائم کیا۔ اس طرح گویا اہل ایمان نے اللہ کے جاری کردہ پراسس میں اپنا حصہ ادا کیا۔ اس کے بعد وہ اللہ کی یقینی نصرت کے مستحق بن گیے۔ چناں چہ اس کا نتیجہ فتح مبین کی صورت میں بر آمد ہوا۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ اسی قسم کی صورتِ حال زیادہ بڑے پیمانے پر پیدا ہوئی ہے۔ پچھلے تقریباً چار سو سال کے عمل کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر موافقِ اسلام حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ایک طرف عالمی سطح پر مذہبی آزادی کو انسان کا مطلق حق مان لیا گیا ہے، اور دوسری طرف اسلامی دعوت کو پھیلانے کے اتنے زیادہ مواقع پیدا ہوئےہیں، جس کو مواقع کا انفجار (opportunity explosion) کہا جاسکتا ہے۔
اب دوبارہ ضرورت ہے کہ اہل ایمان اللہ کی نصرت کریں۔ اس نصرت کی صورت یہ ہے کہ امت مسلمہ دوسری قوموں کے ساتھ اپنے تمام نزاعات کو یک طرفہ طور پر ختم کردے، اور اپنی ساری توجہ صرف ایک نکتے پر لگادے۔ یعنی پیدا شدہ مواقع کو پر امن طور پر دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا۔ اس طرح اہل ایمان اللہ کے پیدا کردہ تاریخی پراسس میں اپنا حصہ ادا کریں گے۔ ایسا کرنا امت مسلمہ کو نصرت الٰہی کا یقینی مستحق بنا دے گا، اور پھر دوبارہ ان کو وہ کامیابی حاصل ہوگی جس کو قرآن میں فتح مبین (الفتح1:) کہا گیا ہے۔
فتح مبین کی اس الٰہی نصرت کو حاصل کرنے کی صرف ایک شرط ہے، اور وہ یہ کہ اہل اسلام اس پورے معاملے کو قومی نقطۂ نظر سے نہ دیکھیں ، بلکہ خالص دعوتی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ قومی تعلقات میں ہمیشہ ایسے حالات پیش آتے ہیں، جو بظاہر کسی قوم کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ یہ قوم ان حالات کو اپنے خلاف ظلم سمجھ لیتی ہے، اور پھر اس کے نتیجے میں اس قوم کے اندر منفی سوچ پیدا ہوجاتی ہے۔ منفی سوچ قوم کو اس کے لیے نااہل بنا دیتی ہے کہ وہ حالات کے مثبت پہلو کو دریافت کرے، اور ان کو استعمال کرتے ہوئے اپنے معاملے کی منصوبہ بندی مثبت انداز میں کرے۔ یہی منفی ذہن قوموں کے لیےتعمیر میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ہے۔ انھوں نے فطری حالات کو مفروضہ طور پر اپنے خلاف سمجھ لیا، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگے۔ مظلومیت کے احساس کی مسلمانوں کوبہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ۔ وہ یہ ہے کہ اس احساسِ مظلومیت نے مسلمانوں کو اس بات کے لیے نااہل بنا دیا ہے کہ وہ تاریخ کے مثبت پہلو کو سمجھیں، اور اس میں اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے اللہ کی نصرت کے مستحق بنیں۔
واپس اوپر جائیں

مصیبت کا مثبت پہلو

ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: ما دعا اللہ َالمؤمنُ بدعوة إلا وُکِّل بحاجتہ جبریل فیقول:لا تعجل بإجابتہ فإنی أحب أن أسمع صوت عبدی المؤمن(حِلیۃ الاولیاء، 2/327-8)۔یعنی جب کوئی بندہ اللہ کو پکارتا ہے، تو جبریل فرشتہ کواس کی حاجت برآری کے لیے مقرر کردیا جاتا ہے، اوراللہ کہتا ہے کہ( اے جبریل) اس کی حاجت کو پورا کرنےمیںجلدی نہ کر، کیوں کہ مجھے یہ محبوب ہے کہ میں مومن بندے کی آواز کو سنوں۔
اللہ ایک مومن بندہ کی صوت (آواز) کو کیوں پسند کرتا ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس کی صوت میں کوئی نغمہ (melody)ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی بندہ مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتا ہے تو اس سے اس کی روحانی ارتقا (spiritual development) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کو یہ روحانی ارتقا پسند ہے، نہ کہ صوت کا نغمہ۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اوپر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کی حساسیت (sensitivity) کو بڑھاتی ہے۔ حساسیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی قوت اخذ (grasp) بڑھ جاتی ہے۔ اس بنا پر ایسا آدمی ،اگر وہ منفی سوچ میں مبتلا نہ ہو تو وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے تجربے سے زیادہ سے زیادہ سبق لے، وہ چیزوں میں چھپی ہوئی حکمت کو زیادہ سے زیادہ دریافت کرسکے۔
مصیبت حساسیت کو بڑھاتی ہے، اور حساسیت آدمی کی قوت اخذ میں اضافہ کرتی ہے، اور قوت اخذ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے آدمی کی معرفت کو بہت زیادہ بڑھادیتی ہے۔ مصیبت بجائے خود کوئی مطلوب چیز نہیں، مگر اس کا نتیجہ (result) اس کو مطلوب بنا دیتا ہے۔ معرفت جسمانی اعضاء کی طرح ایک تخلیقی عطیہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک خود دریافت کردہ چیز (self-discovered item) ہے، اور دریافت کا یہ عمل (process) ہمیشہ ناخوش گواری کے راستے سے گزرتا ہے۔ معرفت کے حصول کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نا انصافی کا مسئلہ

تمام مصلحین ہمیشہ ایک کام کرتے رہے ہیں۔ اور وہ ہے نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو ان کے احتجاج (protest) کا کبھی کوئی مثبت فائدہ نہیں نکلا۔ احتجاج کی کثرت کے باوجود نا انصافی کے واقعات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ بلکہ مصر کے حالیہ واقعات یہ بتاتے ہیں کہ نا انصافی کے خلاف پروٹسٹ کے طریقے نے صرف ناانصافی میں مزید اضافہ کیا ۔
اصل یہ ہے کہ ’’ناانصافی‘‘ فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ ناانصافی ہمیشہ آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کوئی طاقت انسانی آزادی کا خاتمہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے نانصافی کا امکان بھی کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں دانش مندی کا طریقہ یہ ہے کہ خود اپنے اندر اتنی ذہنی بیداری (intellectual awakening) پیدا کی جائے کہ آپ ناانصافی کرنے والوں کی ناانصافی کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر قدیم مکہ کے سرداروں نے رسول اور اصحابِ رسول کو عمرہ کے لیے مکہ جانے سے روکا۔ یہ صریح طور پر ناانصافی کا ایک کیس تھا۔ لیکن پیغمبرِ اسلام نے اس ناانصافی پر احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ حدیبیہ سے واپس آکر خاموش منصوبہ بندی کی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسال کے اندر تاریخ بدل گئی۔ اور حج اور عمرہ کا راستہ ابدی طور پر تمام امت کے لیے کھل گیا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ پروٹسٹ کا طریقہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹو (counter-productive) ثابت ہوتا ہے۔یعنی برعکس نتیجہ پیدا کرنے والا۔ وہ مسئلے کو صرف بڑھاتا ہے، جب کہ غیر احتجاجی طریقہ مسئلہ کو ختم کرنے والا ہے۔دانش مند آدمی وہ ہے، جو نتیجہ کو دیکھ کر اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔
واپس اوپر جائیں

قتال فی سبیل اللہ، دعوت الی اللہ

قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں قتال کریں(الصف4:)۔ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے کہیں یہ لفظ نہیں آیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتا ہے۔ قرآن میں ایسے لوگوں کے لیے جو لفظ آیا ہے وہ قول احسن (فصلت 33:) ہے۔خالص موضوعی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ فرق بہت قابل غور معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ دعوت الی اللہ کا کام ایک ایجابی کام ہے۔ اس کے مقابلے میں قتال فی سبیل اللہ کا کام بظاہر ایک سلبی کام ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک سلبی کام تو ایک محبوب کام ہو لیکن ایجابی کام محبوب کام نہ ہو۔اللہ کے نزدیک یہ محبوب ہو کہ انسانوں کو جنگ کرکے قتل کردیا جائے، اور یہ محبوب نہ ہو کہ انسان کے اندر اللہ رب العالمین کی معرفت پیدا کی جائے تاکہ وہ جنت میں داخلے کامستحق قرار پائے۔اس معاملے میں بداہۃً اصل حقیقت یہی ہے۔
مزید یہ کہ اگر اس نقطۂ نظر سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دعوت الی اللہ کا کام رسول اللہ کے عہد کے بعد بظاہر ایک مسنگ آئٹم (missing item) نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں قتل و قتال کا کام اتنا زیادہ عام ہے کہ اسلام کی پوری تاریخ میں پھیلا ہوا ہے، اور آج تک جاری ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ کا بہت بڑا سوال ہے۔ اس سوال کا گہرا تعلق احیاء اسلام سے ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک دعوت الی اللہ کا کام بلاشبہ قتال فی سبیل اللہ کے کام سے زیادہ بڑا ہے۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کے کام کی اہمیت نص کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دعوت الی اللہ کے کام کی اہمیت اجتہاد کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔اصل یہ ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں عملا ً سب سے بڑا کام یہ تھا کہ دنیا سے فتنہ (البقرۃ193:)کا خاتمہ کیا جائے، یعنی مذہبی جبر (religious persecution) کا خاتمہ۔
ہزاروں سال کےاندر یہ فتنہ اتنا زیادہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ شدید قتال کے بغیر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ اس وقت قتال تا ختم فتنہ پر بہت زیادہ زور دیا جائے تاکہ فوکس ہٹنے نہ پائے۔ لیکن اب جب کہ فتنہ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ بذریعہ اجتہاد یہ معلوم کیا جائے کہ اللہ کا مطلوب ایجابی کام کیا ہے۔ جب سلبی کام کی ضرورت باقی نہ رہے۔ تو اس کے بعد اپنے آپ ایجابی کام نمبر ایک کام بن جاتا ہے۔ اب جب کہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے تمام دروازے کھل چکے ہیں تو اب ہمیں بذریعہ اجتہاد یہ معلوم کرنا ہے کہ اب ساری اہمیت دعوت الی اللہ کی ہے۔ قدیم زمانے میں قتال برائے ختم فتنہ اور دعوت الی اللہ دونوں کام ساتھ ساتھ کرنا پڑتا تھا۔ اب قتال برائے ختم فتنہ کا حکم عملاً موقوف ہوچکا ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ پوری طاقت صرف ایک کام میں لگادی جائے۔ یعنی دعوت الی اللہ کے کام میں ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قرآن میں قتال پر محبت ماہیت کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ ضرورت کے اعتبار سے ہے۔ تاکہ لوگوں میں شوق پیدا ہو، اور فوکس ہٹنے نہ پائے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر رسول اللہ نے یہ دعا کی تھی:اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابة من أہل الإسلام، فلا تعبد فی الأرض أبدا (مسند احمد، حدیث نمبر208)۔ یعنی اے اللہ اگر تو اہل اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردے، تو زمین میں پھر کبھی تیری عبادت نہ ہو گی۔ پیغمبر کی اس دعا کو اس کے پس منظر کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مذہبی تشدد کا نظام حکومت کی تائید سے بے حد پختہ ہوچکا تھا۔ یہ نظام صرف بزور طاقت ختم ہوسکتا تھا۔ اس جابرانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے ایک جانباز گروہ درکار تھا۔ اصحاب رسول یہی جانباز گروہ تھے، جو لمبی مدت کے اندر تیار کیے گیے تھے۔ عملی اعتبار سے یہ ناؤ آر نیور (now or never) کا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر اس گروہ کو استعمال کرکے جبر کے نظام کو ختم نہ کیاجاتا تو بظاہر وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں تھا۔ رسول اللہ کی دعا کا مطلب یہ تھا کہ اس تاریخی موقع کو ہر حال میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ موقع کھویا گیا تو بظاہر دوبارہ ایسا موقع ملنے والا نہیں۔ اس وقت شفٹ آف ایمفاسیس (shift of emphasis) کے طور پر جنگ پر زور دیا گیا، نہ کہ ابدی اصول کے طور پر۔
واپس اوپر جائیں

عمومی تائید کا دور

اسلام کی دعوت، توحید کی دعوت تھی۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک عالمی دعوت تھی۔ اس حقیقت کو قرآن میں عالمی انذار (الفرقان 1:) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مگر قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک دعوت ِ توحید کا مشن عمومی مخالفت کے ماحول میں کرنا پڑا۔اس بنا پر اس مشن کو مطلوب نشانے کے مطابق کرنا بے حد مشکل ہوگیا۔ آخر کار اللہ کو یہ مطلوب ہوا کہ اس منفی صورت حال کو ختم کیا جائے۔ تاکہ دعوتِ توحید کا مطلوب عمل کسی رکاوٹ کے بغیر انجام پاسکے۔
اس موافق صورت حال کو ظہور میں لانے کے لیے اللہ نے تاریخ میں ایک انقلابی عمل جاری کیا۔ یہ عمل ساتویں صدی میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ شروع ہوا، اور بیسویں صدی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ اب اہل ایمان کو صرف یہ کرنا ہے کہ ان پیدا شدہ مواقع (opportunities) کودعوت توحید کے لیے منصوبہ بند انداز میں پرامن طور پر استعمال کریں۔ اس عمل کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34) ۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو انفرادی امکان کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی عداوت کوئی مستقل حالت نہیں۔ انفرادی سطح پر تم آج بھی اس کا تجربہ کرسکتے ہو کہ ایک شخص جو بظاہر تم کو اپنا مخالف نظر آتا ہو، اس سے یک طرفہ (unilateral) حسن سلوک کرو تو عین ممکن ہے کہ وہ تمھارا دوست بن جائے۔ اس قسم کا تجربہ اسلام کے دور اول میں بار بار پیش آیا۔یعنی دعوت یا حسن سلوک کے نتیجے میں کل کا دشمن آج کا دوست بن گیا۔ مثلاً عمر ابن الخطاب ، اور ہندہ زوجہ ابوسفیان، وغیرہ۔ لیکن اتنا ہی کافی نہ تھا۔ اسی کے ساتھ ضرورت تھی کہ اس کلچر کو دنیا میں عمومی سطح پر لایا جائے۔
اس واقعہ کا دوسرا پہلو حدیث میں پیشین گوئی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:إن اللہ جل وعز لیؤید الإسلام برجال ما ہم من أہلہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔یعنی اللہ ضرور اس دین کی مدد غیر اہل دین کے ذریعہ کرے گا۔
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، اس کا ایک منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ تھا کہ دنیا میں تائید کلچر کو وجود میں لانا۔ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں جس ڈائیکاٹومی (dichotomy) کا رواج تھا۔ وہ تھا، دوست اور دشمن کی ڈائیکاٹومی۔ اللہ نے انسانی تاریخ میں ایسے اسباب پیدا کیے کہ انسانوں کے درمیان ایک نئی ڈائیکاٹومی وجود میں آگئی۔ وہ تھی، دوست اور موید (supporter) کی ڈائیکاٹومی۔ یعنی جو لوگ دوست تھے، وہ تو دوست تھے۔ اور جو لوگ دوست نہ تھے، وہ عملاً موید (supporter) بن گیے۔
یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ جمہوریت (democracy) اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہر آدمی کا مفاد دوسرے آدمی کے ساتھ جڑ گیا۔ پولیٹکل لیڈر کا انٹرسٹ ووٹر سے، اور ووٹر کا انٹرسٹ پولیٹکل لیڈر سے۔ بزنس مین کا انٹرسٹ کسٹمر سے اور کسٹمر کا انٹرسٹ بزنس مین سے۔ ٹیچر کا انٹرسٹ اسٹودنٹس سے، اور اسٹوڈنٹس کا انٹرسٹ ٹیچر سے، وغیرہ۔
اس طرح دنیا میں ایک نیا باہمی انحصار کا کلچر (interdependent culture) وجود میں آیا۔ اب ایک نیا جبر (compulsion) پیدا ہوا۔ جس کے تحت لوگوں کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ دشمن کی اصطلاح میں سوچنا چھوڑ دیں۔ وہ تمام انسانوں کو یا تو دوست کے روپ میں دیکھیں یا موید کے روپ میں۔ اس کی ایک صورت وہ ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔
اس کلچر کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں کھلے پن (openness) کا دور آگیا۔ اب اپنے اور غیر کا فرق ختم ہوگیا۔ مثلاً آپ اگر دعوت ِ توحید کا مشن چلا رہےہیں تو ضروری نہیں ہوگا کہ صرف اپنے وسائل کے دائرے میں اپنا مشن چلائیں، بلکہ ہر اسٹیج اور ہر پلیٹ فارم آپ کے لیے کھلا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ دوسرے لوگ انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کریں، تووہ آپ کو دعوت دیں گے کہ آپ وہاں آئیں، اور ان کے اسٹیج سے پرامن انداز میں اپنے مشن کا تعارف پیش کریں ۔
قدیم زمانے میں مسلم حکومتوں میں غیر مسلموںپرجزیہ (tribute) عائد کیا گیا تھا۔ یہ زمانی حالات کے مطابق تھا۔ کچھ غیر مسلم مصنفین نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ یہ ایک امتیازی ٹیکس (discriminatory tax)ہے۔مسلم مصنفین نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ امتیازی ٹیکس نہیں ہے، بلکہ وہ حفاظتی ٹیکس (protective tax) ہے۔ تاہم اس طرح کے جوابات کے باوجود دوسرے حضرات کا اعتراض ختم نہیں ہوا۔ موجودہ زمانے میںجزیہ کے نام پر علاحدہ ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب نئے حالات کے مطابق، یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ٹیکس تو سب کے لیے ایک ہی ہو۔ ٹیکس کے معاملے میں مسلم اور غیرمسلم کا کوئی فرق نہ ہو۔ البتہ ایک اور اصول کو اختیار کرتے ہوئے، اس مقصد کو زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ایک نیا تصور بڑے پیمانے پر وجود میں آیا ہے۔ اس کو آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا طریقہ اس معاملہ کا نعم البدل ہے۔ آؤٹ سورسنگ کا طریقہ 1981میں امریکا سے شروع ہوا۔ موجودہ حالات میں یہ طریقہ تجارتی امور میں استعمال کیا جاتا ہے:
Outsourcing is a practice in which an individual or company performs tasks, provides services or manufactures products for another company.
موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ کا طریقہ زیادہ تر اقتصادی معاملے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے۔ اہل اسلام اس طریقہ کو دعوت کے لیے اس طرح استعمال کرسکتے ہیں کہ وہ دوسرے اداروں اور دوسروں کے اجتماعات کو اپنے پیغام کی پرامن اشاعت کے لیے بطوردعوہ اَپر چونٹی اَویل (avail)کریں۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر اسلام کا مشن

قرآن اصلاً قانون کی کتاب نہیں ہے ، بلکہ وہ حکمت (wisdom)کی کتاب ہے۔ قرآن اگر قانون کی کتاب ہوتی تو قرآن کی آیتوں کا صرف ترجمہ، قرآ ن کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا۔ لیکن قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے تدبر (ص29:) ضروری ہے۔ قرآن کی آیتوں میں جو حکمت ہے، وہ صرف غور وفکر کے ذریعے سمجھی جاسکتی ہے۔ غور و فکر کے بغیر قرآن کے گہرے مفہوم تک پہنچنا ممکن نہیں۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جوباتیں بذریعہ وحی بتائی گئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دو تھیں— الھدیٰ اور الدین (التوبہ32:) ۔ یہ اسلوب قران کی تین آیتوں میں اختیار کیا گیا ہے۔ اس پر غور کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ الہدی سے مراد منہج (method) ہے۔ اور الدین سے مراد وہ دین جو تمام نبیوں (الشوریٰ13:)کو مشترک طور پر دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن اصلاً وہی تھا جو تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔ یعنی انسان کو اس دینِ اسلام سے باخبر کرنا جو انسان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا ضامن ہے۔ اس دینِ مشترک کی تعلیمات بنیادی طور پر تین ہیں— توحید، رسالت، آخرت۔توحید سے مراد اس دین کی وہ آئڈیالوجی ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے۔ رسالت سے مراد وہ مستند ذریعہ ہے جس کے ذریعے یہ دین انسانوں تک پہنچتا ہے۔ آخرت سے مراد انسان کا وہ ابدی انجام ہے، جو اس دین کو اختیار کرنے یا اختیار نہ کرنے کی بنا پر کسی انسان پر واجب ہوتا ہے۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہے۔ وہ ہمیشہ اور ہر حال میں ایک ہی رہے گا۔ لیکن ہدیٰ (منہج یا طریقہ کار) کا تعلق حالات سے ہے۔ وہ حالات کےتحت بدلتا رہے گا۔
مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ وہ زمانہ قبائلی زمانہ (tribal age)تھا۔ قبائلی دور میں اختلاف کو طے کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا، اور وہ تلوار (sword) تھا۔ اس بنا پر اس زمانے میں اہل ایمان کو بطور دفاع قتال کے میدان میں فریق ثانی کا مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن اب دورِ سیف (age of sword)ختم ہوچکا ہے۔ اب ساری دنیا میں معاملات کو طے کرنے کی ایک ہی مسلّم بنیاد ہے، اور وہ پر امن طریقہ کار یا پرامن گفت و شنید (peaceful negotiation) کا طریقہ ہے۔ اس لیے اب اہل ایمان کو کسی سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب ان کے لیے اعدادِ قوت (الانفال60:)کا انطباقی مفہوم (applied meaning) یہ ہے کہ وہ پر امن گفت و شنید اور دلیل کے اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کریں۔ موجودہ زمانے میں تلوار کے اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کرنا ، ایک غیر متعلق (irrelevant) بات ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دنیا کی تمام قوموں نے جان لیا ہے۔ مثلاً دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے زمانے میں برطانیہ، جرمنی، فرانس اور جاپان باقاعدہ طور پر جنگ میں شریک تھے۔ لیکن جنگ کے بعد انھوں نے یہ دریافت کیا کہ اب چیزیں پر امن طریقہ کار سے ملتی ہیں، نہ کہ پرتشدد طریقہ کار سے۔ چناں چہ انھوں نے جنگ کے اس معاملہ میں یو ٹرن (u-turn)لے لیا۔ انھوں نے اپنی پالیسی امن کی بنیاد پر بنائی، نہ کہ پہلے کی طرح جنگ کی بنیاد پر۔
واقعہ کا یہ پہلو بتاتا ہے کہ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانےمیں جو غزوات پیش آئے، وہ زمانی سبب (age factor) کی بنیاد پر پیش آئے، وہ ابدی معنوں میں اسلام کی تعلیم کا حصہ نہ تھے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام کے دورِ اول میں جو جنگیں پیش آئیں، وہ اسلام کی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ اسلام کی ابدی تعلیمات کا حصہ۔ اب جنگ کے طریقہ کو پہلے کی طرح جاری رکھنا صرف خلافِ زمانہ حرکت (anachronism) کے ہم معنی ہوگا، نہ کہ واقعی معنوں میں کوئی مطلوب کام۔
مسلم فقہاء جس چیز کو نصبِ امامت کہتے ہیں، اس کا تعلق بھی حالات سے ہے، نہ کہ عقیدہ کی طرح ابدی تعلیمات سے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں نصبِ امامت کا واقعہ بطور وقتی ضرورت پیش آیا۔ اب اگر اس کو اسلام کی مستقل تعلیم کا حصہ قرار دیا جائے تو یہ دین کو تاریخ سے اخذ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ جب کہ تاریخ حالات کی پیداوار ہوتی ہے، نہ کہ اصولی تعلیمات کی پیداوار۔دین کا ماخذ ابدی طور پر قرآن و سنت ہے، نہ کہ وہ چیز جو حالات کی نسبت سے وجود میں آتی ہے۔
کچھ مفکرین نے پیغمبر اسلام کے طریق کار کو تین مراحل میں تقسیم کیا ہے — مرحلۂ دعوت، مرحلۂ ہجرت، مرحلۂ جہاد۔ مگر یہ پیغمبر کے مشن کو تاریخ سے اخذ کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کا مشن صرف ایک تھا، اور وہ دعوت توحیدہے۔ بقیہ چیزیں جو پیغمبر کے مشن میں دکھائی دیتی ہیں، وہ حالات کے تحت پیدا ہونے والی تاریخ کا حصہ ہیں، نہ کہ اصل دینی تعلیمات کا حصہ۔
قرآن میں پیغمبروں کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، نیز بائبل سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، اس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبروں کا مشن ہمیشہ ایک تھا۔ لیکن ان کی تاریخ مختلف تھی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مشن کا تصور ابدی عقیدہ سے بنتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، تاریخ ایک دو طرفہ عمل (bilateral process) کے تحت وجود میں آتی ہے۔ تاریخ ہمیشہ اس اعتبار سے بنتی ہے کہ مخاطب (audience) کا ردعمل دعوت کے مقابلے میں کیا تھا۔
اسلام میں سیاسی اقتدار کا تعلق عقیدہ سے نہیں ہے، بلکہ عملی ضرورت سے ہے۔ اس کا مقصدـ شریعت کا نفاذ نہیں ہے۔ بلکہ وہی چیز ہے جس کو تمکین فی الارض(الحج41:)کہا گیا ہے، یعنی سماجی استحکام کا حصول ۔ اسلام ایک پیس فل مشن ہے، اسلام کا مقصد یہ ہے کہ پرامن انداز میں خدائی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلایا جائے۔ یہ مقصد اس وقت حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ سیاسی استحکام قائم ہو۔ خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے قائم ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ہر حکومتی فارم کو یکساں طور پر قبول کیا گیا ہے۔ آپ قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں تو آپ کو حکومت کا کوئی واحد مطلق فارم نہیں ملے گا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ’’خلافت‘‘ کے چار مختلف فارم قائم ہوئے۔ اس کے بعد مسلم ملکوں میں خاندانی خلافت (dynasty) کا طریقہ رائج ہوگیا۔ اور اس کو تمام علماء نے تسلیم کرلیا۔ حتٰی کی آج بھی وہ رائج ہے۔ اس معاملے میں ایک اصول وہ ہےجو مکی دور کے اس واقعہ میں ملتا ہے، جب کہ صحابہ کی ایک جماعت نے پیغمبر اسلام کی اجازت سے حجاز سے حبش کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:لو خرجتم إلى أرض الحبشة؟ فإن بہا ملکا لا یظلم عندہ أحد، وہی - أرض صدق - حتى یجعل اللہ لکم فرجا مما أنتم فیہ(البدایۃ والنہایۃ، دارالفکر، 1986، 3/66)۔ تم لوگ حبش کے ملک میں چلے جاؤ۔ کیوں کہ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہےجس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی زمین ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے گنجائش کی صورت پیدا کردے۔
رسول اللہ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر غیر مسلم حکومت میں بھی اہل ایمان کو امن حاصل ہو تو وہ حکومت بھی ابل ایمان کے لیے قابلِ قبول حکومت ہوگی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کا ایک وعظ ہےجس کا خلاصہ یہ ہے:’’میرے نزدیک آج کل کے جھگڑے اور فساد کی بنیاد یہ ہے کہ ہر شخص سواسیر بننا چاہتا ہے، کوئی شخص سیر بن کر رہنا نہیں چاہتا۔ اگر خود کو سیر اور دوسروں کو سوا سیر سمجھے کا جذبہ پیداہوجائے تو آج ہی یہ سارے جھگڑے اور فساد ختم ہوجائیں۔‘‘ (صحبتے با اہل دل)
یہ نہایت صحیح بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جھگڑوں کی جڑ لوگوں کا یہی جذبہ ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں سوچتا کہ بس چند دن میں کی زندگی تک یہ سارے جھگڑے ہیں، اسکے بعد انسان ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ پھر نہ تو کوئی سیر ہوگا، اور نہ کوئی سواسیر۔
آہ، انسان آج سیر بن کر رہنے پر راضی نہیں۔ حالاں کہ اس پر وہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ سیر بن کر رہے گا اور نہ سوا سیر۔ اگر لوگ جان لیں کہ بالآخر وہ کچھ بھی نہ رہیں گے تووہ خود ہی سیر بننے پر راضی ہوجائیں اور پھر تمام جھگڑے بھی اچانک ختم ہوجائیں۔ (ڈائری، 1983)
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
واپس اوپر جائیں

قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت

امت مسلمہ کی سیاسی تاریخ کا یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ تقریباً تمام علماء نے اس پر اتفاق کر لیا کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد خاندانی حکومت (dynasty) قائم ہوگئی۔ یہ خاندانی حکومت بنو امیہ سے شروع ہوئی اور عثمانی ترکوں کی خلافت قائم رہی۔ لیکن علمائے امت نے کبھی اس کے خلاف خروج (بغاوت) نہیں کیا۔ اس سے اسلام کا یہ سیاسی اصول معلوم ہوتا ہے کہ اگر قائم شدہ حکومت بظاہر لوگوں کو غلط حکومت معلوم ہوتی ہو تو ان کے لیے اس کے خلاف بغاوت کا آپشن نہیں ہے، بلکہ صرف ایک آپشن ہے، اور وہ ہے نصیحت۔ یعنی حاکم کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے کے بجائے، خیرخواہانہ نصیحت کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کرنا۔
اس معاملے کی ایک جزئی مثال یہ ہے کہ بنو امیہ کا حکمراں سلیمان بن عبد الملک اپنے بیٹے کو اپنے بعد حکومت کے لیے نامزد کرنا چاہتا تھا، جو بظاہر اچھا انتخاب نہ تھا۔ اس کے زمانے کے ایک عالم رجاء ابن حیوہ نے سلیمان بن عبد الملک کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی۔ بلکہ خاموش نصیحت کے ذریعے اس کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کوشش کامیاب رہی۔ چناںچہ سلیمان بن عبدالملک نے ایک باقاعدہ تحریر کے ذریعے یہ وصیت کی کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کے بجائے عمر بن عبد العزیز کو ان کی جگہ حاکم بنایا جائے، جو کہ مسلمہ طور پر سلیمان کے بیٹے سے زیادہ اہل تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ علماء نے ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دیا تھا۔ لیکن بعد کو تجربے سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی بغاوت کا نتیجہ شدید تر برائی (greater evil) کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس عملی نتیجہ کو دیکھنے کے بعد علماء کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ کسی قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے:  (الحسن بن صالح)کان یرى السیف یعنی کان یرى الخروج بالسیف على أئمة الجور وہذا مذہب للسلف قدیم لکن أستقر الأمر على ترک ذلک لما رأوہ قد أفضى إلى أشد منہ ففی وقعة الحرة ووقعة بن الأشعث وغیرہما عظة لمن تدبر۔ (تہذیب التہذیب لابن حجر العسقلانی، باب الحسن بن صالح(516)،دائرة المعارف النظامیة، الہند،الطبعة الأولى، 1326ھ، 2/285)۔یعنی حسن بن صالح ظالم حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کو درست سمجھتے تھے۔ یہ سلف کا قدیم مذہب ہے۔ لیکن بعد میں اس معاملے میں یہ رائے طے پائی کہ ایسا نہ کیا جائے۔ کیوں کہ علماء نے یہ دیکھا کہ مسلح بغاوت کا طریقہ پہلے سے زیادہ شدید حالات کا سبب بن گیا۔ چناں چہ حرہ اورابن الاشعث وغیرہ، کے واقعے میں غور کرنے والوں کے لیے نصیحت کا بڑا سامان ہے۔
قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کی ممانعت کے بارے میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، عرب عالم عبدالرحمان بن معلا اللویحق کی کتاب الغلو فی الدین کا چیپٹر الخروج علی الحکام(بیروت، 1992)۔صریح ممانعت کے باوجود کیوں ایسا ہوا کہ کچھ علماء نے قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دے دیا۔ ان علماء میں امام ابوحنیفہ بھی شامل ہیں۔ ابوبکر الجصاص نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے : وکان مذہبہ (یعنی أبا حنیفة) مشہورا فی قتال الظلمة وأئمة الجور(احکام القرآن للجصاص، بیروت، 1405ھ، سورۃ البقرۃ 124:)۔ یعنی ابوحنیفہ کا یہ مسلک مشہورہے کہ وہ ظالم حکمراں اور ائمۂ جور کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے تھے۔
ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کے اس مسلک کو کچھ لوگوں نےاجتہادی خطا قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں صریح طور پر ظلم پر صرف صبر کا حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے دور میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسموں میں شیطان جیسا دل ہوگا۔ اس پر صحابی حذیفہ بن یمان نے سوال کیا، اے اللہ کے رسول، اس وقت میں کیا کروں۔ آپ نے فرمایا: تسمع وتطیع للأمیر، وإن ضرب ظہرک، وأخذ مالک، فاسمع وأطع(صحیح مسلم، حدیث نمبر1847)۔یعنی تم امیر کی بات سنو، اور ان کی اطاعت کرو، خواہ وہ تمھاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تم سے تمھارا مال چھین لے، تم ان کی بات سنو، اور ان کی اطاعت کرو۔
اس طرح کی صریح ہدایت کے باوجود کیوں متعدد علماء نے قائم شدہ حکوت کے خلاف بغاوت (خروج)کو شرعاًجائز قرار دے دیا۔ اس کا سبب ایک حدیث کی غلط تاویل تھی۔ وہ حدیث یہ ہے: صحابی عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ بایعنا على السمع والطاعة، فی منشطنا ومکرہنا، وعسرنا ویسرنا وأثرة علینا، وأن لا ننازع الأمر أہلہ، إلا أن تروا کفرا بواحا، عندکم من اللہ فیہ برہان(صحیح البخاری، حدیث نمبر7056۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1709)۔یعنی ہم نے اس بات پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے، اپنی پسند میں بھی اور اپنی پسند کے خلاف بھی، مشکل میں اور آسانی میں، اور اس پر کہ دوسروں کو ہمارے اوپر ترجیح دی جائے، اور یہ کہ ہم اہل اقتدار سے نزاع نہیں کریں گے۔ الا یہ کہ تم کفر بواح (کھلا کھلاکفر) دیکھو، جس میں تمھارے پاس اللہ کی برہان (واضح دلیل)موجود ہو۔
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں جو استثنا ہے وہ کفر بواح کا استثنا ہے، ظلم و جور کا استثنا نہیں ہے۔ ظلم و جور ایک عملی روش ہےاور کفر بواح ایک اعتقادی معاملہ ہے۔دیگر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ ظلم و جور پر ہر گز خروج جائز نہیں۔ حتی کہ ظالم کے خلاف پر امن مظاہرہ (peaceful demonstration) بھی جائز نہیں ہے۔ پر امن تدابیر کے ذریعے حکمراں کو اقتدار سے ہٹانا بھی یقینی طور پر ناجائز ہے۔ ظلم و جور کے معاملےمیں صرف لسانی نصیحت جائز ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
حدیث میں کفر بواح پر خروج کا جو ذکر ہے، وہ بھی حقیقۃ ًمستثنیٰ نہیں ۔ یہ در اصل وہی چیز ہے جس کو تعلیق بالمحال یا تعلیق الشرط بالامر علی المحال کہتے ہیں۔یعنی کسی معاملے کو ناممکن الوقوع امر پر منحصر کرنا۔ اس نوعیت کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: إِنَّ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ (7:40)۔ یعنی بے شک جن لوگوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا، ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں نہ گھس جائے۔ اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا محال ہے۔ اسی طرح ان مستکبرین کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ قرآن کی اس آیت میں حقیقۃ عدم وقوع کا ذکر ہے نہ کہ وقوع کا۔
قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج کو حرام قرار دینا ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ جب بھی کسی قائم شدہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو ارباب حکومت لازما ًایسی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کے لیے ہر جوابی تدبیر اختیار کریں گے۔ اس کے نتیجے میں طرفین کے درمیان شدید ٹکراؤ شروع ہوجائے گا۔ یہ ٹکراؤ خونی ٹکراؤ تک پہنچ جائے گا۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں ہر قسم کی تباہی پیش آئے گی۔ گویا ٹکراؤ کرنے والوں کا اعلان تو یہ ہوگا کہ ہم اصلاحِ حکومت کے لیے ٹکراؤ کررہے ہیں، لیکن باعتبار نتیجہ جو چیز سامنے آئے گی، وہ صرف فساد ہو گا، نہ کہ اصلاح۔
اسلام میں قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت (خروج )کو حرام قرار دینا صرف ایک منفی حکم نہیں ہے، بلکہ وہ مکمل طور پر ایک مثبت حکم ہے۔ اس کا مقصدیہ ہے کہ اس طرح کے موقعے پر ایسے آپشن کو لیا جائے جو مزید تباہی سے پاک ہو، اور وہ ہے پر امن نصیحت کا طریقہ اختیار کرنا۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭٭
اسلام ایک ایسے برتر خدا کا تصور دیتا ہے، جو سب سے بلند ہے۔ کسی سماج میں خدا کا تصور زندہ ہو تو یہ اس سماج کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد ایک شخص کے لیے ممکن ہوجا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر کسی ظالم کو ظلم سے باز رکھے۔ (ڈائری، 1983)
واپس اوپر جائیں

قتل گاہ یا صحت گاہ

بیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں جدید طرز کی تعلیم کے ادارے قائم ہوئے۔ یہ برٹش رول کا زمانہ تھا۔ تاہم سیاسی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کا مذہبی طبقہ عمومی طور پر انگریزی تعلیم کا مخالف بن گیا۔ ایک عالم نے یونیورسٹی کے بارے میں لکھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے قتل گاہ ہے۔ ایک اور عالم نے جدید طرز کی تعلیم گاہوں پر ایک کتاب لکھی، جس کا ٹائٹل تھا: ردۃ و لا ابابکر لہا (ایک ارتداد ہے، لیکن اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ابوبکر نہیں) ۔ ایک مشہور شاعر نے انگریزی تعلیم گاہوں کے بارے میں یہ شعر لکھا:
یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اس قسم کی منفی بات صرف زمانے سے بے خبری کا نتیجہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی تعلیم گاہیں ہمارے نوجوانوں کے اندر سے توہم پرستی کا ذہن ختم کررہی تھیں، اور ان کو سادہ ذہن (clean slate)بنارہی تھیں۔ مگر ہمارے رہنماؤں نے اس راز کو نہیں سمجھا، اور غیر ضروری طور پر بےجا مخالفت شروع کردی۔
اس وقت کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ عصری اسلوب (modern idiom) میں اسلام پر کتابیں تیار کی جائیں، اور ان کتابوں کو مسلم نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر پھیلایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید تعلیم ایک موقع (opportunity) کی حیثیت رکھتی تھی، مگر ہمارے رہنما اس کو موقع کی حیثیت سے دیکھنے میں ناکام رہے۔ اس بنا پر وہ ان کو استعمال کرنے سے بھی محروم رہے۔
اس معاملے کا شدید تر نقصان یہ ہوا کہ ان علماء کو ماننے والوں کی بعد کی نسلیں ڈبل اسٹینڈرڈ بن گئیں۔ چناں چہ آج یہ حال ہے کہ یہ مسلمان اپنے علماء اور رہنماؤں کے مفروضہ کارناموں پر لفظی قصیدے پڑھتے ہیں، لیکن عملاً اپنے بچوں کو انھیں تعلیم گاہوں میں تعلیم دلاکر فخر محسوس کرتے ہیں۔ منافقت کلچر کا اتنا بڑا واقعہ شاید پوری مسلم تاریخ میں کبھی پیش نہیں آٰیا۔
واپس اوپر جائیں

انجام کو دیکھ کر

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آٗئی ہے:جاء رجل إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم فقال:بارک اللہ للمسلمین فیک، فخصنی منک بخاصة خیر، قال:مستوص أنت؟ أراہ قال:ثلاثا، قال:نعم، قال:اجلس، إذا أردت أمرا فتدبر عاقبتہ، فإن کان خیرا فأمضہ، وإن کان شرا فانتہ (الزھد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر 41)۔ یعنی ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا: اللہ نے آپ سے مسلمانوں کو برکت دی ہے، تو آپ مجھ کو ایک خاص خیر کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے کہا: تم نصیحت پوچھ رہے ہو، یہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ اس آدمی نے کہا ،ہاں۔ آپ نے کہا، بیٹھ جاؤ، جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے انجام پر غور کرو، اگرانجام بہتر ہو تو اس کو کرو، اور اگر انجام برا ہو تو اس سے رک جاؤ۔
یہ عمل کے بارے میں بلاشبہ ایک جامع نصیحت ہے۔ ہر آدمی کسی عمل کا نقشہ بناتا ہے۔ ہر آدمی کوئی اقدام کرتا ہے۔ یہ ایک عام کلچر ہے۔ آپ نے اس معاملے میں ایک بنیادی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کام وہی کرو، جو ایک نتیجہ خیز کام ہو، جس سے کوئی مفید نتیجہ نکلنے والا ہو۔ اس کے برعکس، جس کام میں اقدام تو ہو لیکن ا س کا کوئی مثبت نتیجہ (positive result)نکلنے والا نہ ہو، اس سے اپنے آپ کو دور رکھو۔
انجام پر غور کرتے ہوئے کوئی کام کرنا، کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اپنے کام کو پلاننگ کے ساتھ انجام دیا جائے۔ کام کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ ذہن میں کچھ خیال آیا، اور آپ نے فوراً اس پر عمل شروع کردیا۔ کام کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو کام سامنے آئے اس پر مختلف لوگوں سے مشورہ کیا جائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو حدیث میں تانی (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 4058) کہا گیا ہے۔ یعنی اپنے وسائل کا اندازہ کیا جائے۔پھر جو کام کیا جائے وہ نہ کمتر اندازہ (underestimation) کے ساتھ کیا جائے، اور نہ برتر اندازہ (overestimation) کے ساتھ کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

ایکٹنگ، اَن فولڈنگ

موجودہ زمانہ پروفیشنلزم کا زمانہ ہے۔ دنیا میں بہت سے مواقع کھلے ہوئے ہیں جہاں آدمی اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ چناں چہ ہر آدمی اپنی زندگی کے آغاز میں اپنے لیے کوئی پروفیشن طے کرتا ہے، اور اس کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ اسی کے مطابق تعلیم، اوراسی کے مطابق تربیت، اسی کے مطابق وہ اپنے کیریکٹر کو بناتا ہے۔ تاکہ وہ جب اپنے مطلوب میدان میں داخل ہو تو وہاں اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت مل سکے۔
چناں چہ موجودہ زمانےمیں ہر چیز ایک پروفیشن بن چکی ہے۔ ہر ایک کا ایک میدانِ عمل (workplace) ہے، اب اسی کے مطابق ہر آدمی اپنے آپ کو تیار کرتا ہے۔ مثلا لیڈر کا ورک پلیس ووٹر کمیونٹی ہے۔ ایجوکیٹر کا ورک پلیس ایجوکیشنل ادارے ہیں۔ بزنس مین کا ورک پلیس اس کے کسٹمر ہیں، وغیرہ۔ ہر آدمی اپنے آپ کو اپنے منتخب ورک پلیس کے مطابق تیار کرتا ہے۔ تاکہ وہ اپنے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مطمئن کرکے اپنے آپ کو کامیاب بناسکے۔
اس پروفیشنل کلچر نے ہر آدمی کو عملاً گویا ایکٹر بنادیا ہے۔ ہر آدمی اپنے آپ کو کسی دوسرے کے لیےتیار کررہا ہے۔ خود اپنی فطری شخصیت کی اَن فولڈنگ (unfolding)ہر ایک کا اصل کام تھا، مگر کوئی نہ اس کام کو جانتا ہے، اور نہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتا ہے۔ خالق نے ہر فرد کو فطری طور پر کچھ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی کا پہلا کام یہ ہےکہ وہ اپنے اس فطری امکان (natural potential) کو دریافت کرے، اور اس فطری امکان کو واقعہ بنائے۔
اس اعتبار سے دنیا میں ہر عورت اور مرد کا اصل کام اپنی انفولڈنگ ہے۔ یعنی اپنی فطرت میں چھپے ہوئے امکانات کو واقعہ (actual) بنانا۔آدمی ایکٹر دوسروں کی نسبت سے بنتا ہے، جب کہ انفولڈنگ خود اپنی فطرت کے تقاضے کے مطابق ہوتی ہے۔ اسی لیے پروفیشنلزم کے ذریعہ آدمی دنیوی ترقی کرسکتا ہے، لیکن وہ یقین اور اعتماد کا سرمایہ حاصل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 253

■ کیرالا ساہتیہ اکیڈمی کےکتاب میلہ (ترشور)میں23 فروری 2017 کو کیرالا کے معروف گرو سوامی وشوا بدرانندا شکتی کو ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکزکے دعوتی لٹریچردیئے گئے جن کو انھوں نے بخوشی قبول کیا۔
■ فروری کے مہینہ میں مسٹر ابو الحکم محمد دانیال (صدر سینٹر فار پیس اینڈ آبجکٹیو اسٹڈیز، بہار و جھار کھنڈ) نے پونے کا سفر کیا۔ یہاں انھوں نے پونے ٹیم سے ملاقات کی اور دعوت کے تعلق سے تبادلۂ خیال کیا۔ اس ضمن میں 23 فروری 2017 کو سی پی ایس (پونے) ٹیم کے ممبر شیخ عبد الصمد اور شیخ ایاز اور حاجی ایوب، ابو الحکم محمد دانیال کے ساتھ ہوٹل ہل وے گئے۔ شیخ عبد الصمد اور محمد دانیال نے ہوٹل کے مالک سکندر سے دعوہ ورک اور سی پی ایس مشن پر گفتگو کی اور ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ترجمۂ قرآن اور سی پی ایس کے دعوہ لٹریچر کو ہوٹل کے ریسپشن ڈیسک پر وزیٹرس کے لیے رکھیں۔ ہوٹل کے مالک اس بات کے لیے راضی ہوگیے ، اورشیخ عبد الصمد صاحب نے دعوہ لٹریچر کو مہیا کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔
■ سی پی ایس (دہلی) کے کچھ ممبران نے ڈاکٹر فریدہ خانم (چیر پرسن سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی) کی سربراہی میں 25 فروری 2017 کو ممبئی کا سفر کیا۔اس دورہ کا مقصد انجمن اسلام ٹکنیکل کالج کے ایک پروگرام میں حصہ لینا تھا۔ اس تقریب میں کالج کے تقریبا 75 ٹیچنگ اسٹاف اور اسٹوڈنٹ شریک ہوئے۔ سی پی ایس ممبران نے اس مجمع کو خطاب کیا۔ اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ آخر میں فیکلٹی کے تمام ممبران کو انگریزی ترجمۂ قرآن اوردی ایج آف پیس (The Age of Peace) کے نسخے ہدیہ میں دیئے گیے۔ اس سفر میں جو لوگ دہلی سے گیے تھے، ان کے نام یہ ہیں، مس ماریہ خان، مس صوفیہ خان، مسٹر اجے دویدی۔ اس کے علاوہ پونے ٹیم سے جناب عبد الصمد صاحب بہار ٹیم سے حافظ اے بی دانیال صاحب بھی شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی ممبئی ٹیم نے بطور میزبان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔
■ آل انڈیا ٹینس ایسوسی ایشن (AITA ) کے زیراہتمام جونئر ٹینس ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب کولکاتا ساؤتھ کلب میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں مختلف شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والی بہت سی ممتاز شخصیات شامل ہوئیں۔ اس موقع پر کولکاتا سی پی ایس ٹیم کی ممبر مز شبینہ علی نے تقریب میں حصہ لیا اور شرکاء کو قرآن، اسپرٹ آف اسلام اور ایج آف پیس دیا۔ مثلاً مِہر کے مترا (Mihir K. Mitra) بنگال ٹینس ایسوسی ایشن کے اعزازی سکریٹری ہیں۔ وہ قرآن پاکر بہت زیادہ خوش ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ کافی عرصے سےانھیں قرآن کی تلاش تھی ۔ انھوں نے سی پی ایس کے اس قدم کو بہت سراہا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ مسٹر نریش کمار(ارجن ایوارڈیافتہ سابق ٹینس کھلاڑی) سے صدر اسلامی مرکز اور ان کے مشن کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ قرآن دیکھ کروہ بہت خوش ہوئے ۔ تمام لوگوں نے شکریہ ادا کیا۔ یہ تقریب 25 فروری 2017 کومنعقد ہوئی تھی۔
■ ربائی ڈیوڈ روزن (Rabbi David Rosen) اور ان کے انڈین نمائندے ارجن ہرداس (Arjun Hardas) 2 مارچ 2017 کوصدر اسلامی مرکز سے ملاقات کے لیے آئے۔ ربائی ڈیوڈ روزن عالمی پیمانے پر انٹرفیتھ اور پرامن بقائے باہم کے مشن کے لیے کام کر رہے ہیں، اوراس سے پہلے صدر اسلامی مرکز سے مل چکے ہیں، اور الرسالہ مشن سے متاثر ہیں۔ یہ انٹرایکشن کافی اچھا رہا۔ آخر میں دونوں مہمانوں کو صدر اسلامی مرکز کی نئی کتابوں کا ایک ایک سیٹ بطور گفٹ دیا گیا۔
■ نیشنل ریڈ کراس سوسائٹی نے 4 مارچ 2017 کوجموں میں ایک میلہ منعقد کیا تھا۔ اس موقع پر ہمالیہ ایجوکیشن مشن، راجوری نے ایک اسٹال حاصل کیا، اور اس میلے میں آنے والے لوگوں کی کثیر تعداد کے درمیان ہندی، انگلش قرآن کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کی دوسری اردو، ہندی اور انگریزی کتابیں دی گئیں۔
■ جمشید پور(جھارکھنڈ) کی سی پی ایس ٹیم کے ممبران نے جناب سنجر عالم صاحب کے مکان پر11 مارچ 2017 کی شام کوایک میٹنگ منعقد کی۔ اس میں جناب ایاز احمد صاحب نے صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’اسلام کا تعارف‘کے دو مضامین پڑھے اور جناب عبد الرب صاحب نے اس کی تشریح کی۔ اس کے بعد ٹیم نے اپنے گزشتہ ایجنڈے پر بات چیت کی اور آئندہ کے لیے ایجنڈا متعین کیا۔ پہلا ایجنڈا مقامی طور پر معروف ڈاکٹر پرساد کے ساتھ میٹنگ اور ان کو قرآن اور دعوہ لٹریچر گفٹ کرنا تھا۔ دوسرا، ثنا ءکامپلیکس کے سینئر طلباء کے درمیان لیف لیٹس تقسیم کرنا تھا۔
■ تامل ناڈواور کیرلا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک کانفرنس10-11 مارچ 2017 کوتامل ناڈوکے یارکاڈ (Yercaud) میں منعقد ہوئی ۔ اس میں فلمی، تعلیمی، سماجی اور ثقافتی میدانوں سے تعلق رکھنے والے 60 افراد نے شرکت کی۔ اس پروگرام کا انعقاد جسٹس بشیر احمد سعید سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز (یونیورسٹی آف مدراس) نے کیا تھا۔ اس موقع پر تامل ناڈو سی پی ایس ٹیم کے ممبر کلو ندیم احمد (آمبور)نے اس میں شرکت کی اور ترجمۂ قرآن اور دعوتی لٹریچرخاص طورپر’’دی ایج آف پیس‘‘ اور’’اسپرٹ آف اسلام‘‘لوگوں کے درمیان تقسیم کیا۔
■ سی پی ایس ٹیم نے 10 تا 12 مارچ 2017 کوحیدرآباد میں تین روزہ دعوہ میٹ کیا۔ سی پی ایس، حیدرآباد کے زیر اہتمام یہ پروگرام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ(حیدر آباد) میںمنعقد ہوئے ، جو کہ جدید سہولیات سے آراستہ ایک کرسچن ادارہ ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پی سموئل صدر اسلامی مرکز کی کتابیں پڑھتے ہیں، اور سی پی ایس مشن کو پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر سی پی ایس کی 8 ٹیم، حیدرآباد، چنئی، بنگلور، رائچور، ادونی، ناگپور، ناندیڑ، ممبئی کے 36 افراد نے حصہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کہ صدر اسلامی مرکز کے بغیر بڑے پیمانے پر اور اعلی درجے کی ڈسپلن ،سنجیدگی اورعزم کے ساتھ کوئی دعوۃمیٹ آرگنائز کی گئی ۔ اس موقع پر مختلف لوگوں نے اپنے تاثرات اور تجربات پیش کیے۔ ان میں سے ایک مولانا سید اقبال احمد عمری صاحب کا خطاب تھا۔ اس کا موضوع تھا ’کنویئنگ ناٹ کنورزن‘ (conveying, not conversion)۔ یہ خطاب کافی پر اثر رہا، جس سے لوگوں کو دعوت کے تعلق سے مزید سوچنے، سمجھنے کا موقع ملا۔
■ بھارتیہ ودیا بھون (چنئی) کے صد سالہ جشن کا انعقاد 22 مارچ 2017 عمل میں آیا۔ اس موقع پرآرگنائزر کی درخواست پر سی پی ایس چنئی کی جانب سے ترجمۂ قرآن کے نسخے اور پیس لٹریچراعلی تعلیم یافتہ افراد کو بطور گفٹ دیے گئے۔
■ نیشنل میڈیکل کالج میں سہارن پور کے ایم ایل اے سنجے گرگ کی صدارت میں جناب شفقت کمال ( ڈی ایم، سہارن پور)کے ذریعہ پیس آڈیٹوریم کی بنیاد 9 اکتوبر 2016 کو رکھی گئی تھی۔ اس کا افتتاح 26 مارچ 2017 کو ناندیڑ (مہاراشٹر) کے جناب کشن جیونت راؤ پاٹل اور چندی گڑھ کے مشہور صنعت کارجناب سنجے اگروال کے ذریعہ ہوا۔ پروگرام کی صدارت ڈاکٹر اسلم خان نے کی۔ پاٹل صاحب نے کہا کہ ہمیں قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا چاہئے تاکہ غلط فہمیاں ختم ہوں اور زندگی میں اس کی تعلیمات کو اپنا کر ہم اپنی ہمیشہ کی زندگی کو کامیاب بنا سکیں۔ محترم جیونت راؤ پاٹل صاحب مہاراشٹر و تلنگانہ کے ایک وفد کے ساتھ دعوہ میٹ کے لیے سہارن پور تشریف لائے تھے۔ سنجے اگروال صاحب نے کہا کہ زندگی کو خوبصورت بنانے کے لیے ہمیں اپنی سوچ کو مثبت بنانا پڑے گا تبھی ہم کامیابی کے راستے پر آگے بڑھ سکیں گے۔اس موقع پر کافی لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں این ایم سی کے ڈاکٹر جے احمد، ڈاکٹر صمد، پروفیسر طاہر، محترمہ الکا چودھری، ڈاکٹر جیوتی، اور کماری چھایا وغیرہ نے حصہ ادا کیا۔
■ مارچ میں عمان میں مسقط انٹرنیشنل بک فیئر2017 منعقد ہوا تھا۔ اس میں سی پی ایس کے چیرمین اور گڈورڈ بکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ثانی اثنین خان صاحب نے شرکت کی ، اور مختلف لوگوں کے درمیان ترجمۂ قرآن و دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ دوران سفر جن لوگوں سے ملاقات ہوئی ان میں زہیر صاحب ہیں۔ یہ الرسالہ کے کافی پرانے قاری ہیں اور صدر اسلامی مرکز کی فکر سے متفق ہیں۔ زہیر صاحب کا وطن بھوپال ہے اور وہ مسقط میں رہتے ہیں۔ ان کی فیملی کے سارے افراد دعوہ ورک میں کافی سرگرم ہیں۔ ان کی اہلیہ مز شبینہ عمان کی ایک یونیورسٹی میں انگلش کی پروفیسر ہیں اور مسجد سلطان قابوس کی دعوتی ٹیم کی ایکٹیو ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ثانی اثنین خان نے عمان کی مشہور مسجد سلطان قابوس مسجد کا دورہ کیا۔ اس مسجد میں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ جن میں بہت سارے لوگ اسلام کو سمجھنا چاہتے ہیں ، کچھ لوگ قرآن پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اس مسجد میں باقاعدہ طور پر دعوہ سینٹرہے۔ جس کا نام مرکز التعریف بالاسلام ہے۔ اس کے ذریعے یہاں آنے والوں کے درمیان دعوت کا کام کیا جاتا ہے۔ یہاں کے منتظمین سی پی ایس کی فکر کو پسند کرتے ہیں، اورگڈورڈبکس کے زیر اہتمام چھپے ہوئے ترجمۂ قرآن کو یہ لوگ زائرین کے درمیان تقسیم کرتے ہیں۔ اس کے سربراہ مسٹر حفیظ الرواحی (Hafidh al Rawahi) ہیں، ان کو جب صدر اسلامی مرکز کی نئی انگریزی کتاب لیڈنگ اے اسپریچول لائف پڑھنے کے لیے دی گئی تو انھوں نے اپنا تاثر ان الفاظ میں دیا:
I started reading Maulana’s latest book, Leading A Spiritual Life. It's a masterpiece. The fact that it's not dogmatic can be quite useful even for non-Muslims to give them a feel of benevolence of Islam. I think you should promote it more aggressively at the international level. Also an audio version will be great. Also developing slides with graphics, as a teaching tool, to present the ideas in a more concise manner to an audience will be very effective.

■مکرمی مولانا صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ، آپ سے فون پر بات ہوئی اور میں نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں اس سال اعتکاف کرنا چاہتا ہوں لہذا آپ اس عبادت کی حقیقت کے متعلق رہنمائی فرمائیں۔ آپ نے نصیحت کی کہ اعتکاف کا واحد مقصد ہے قرآن کا مطالعہ۔ تمام distractions سے الگ ہو کر اپنے آپ کو قرآن کے مطالعہ میں غرق کر دیں۔قرآن کے آئینہ میں اپنی زندگی کا مشاہدہ کریں اور خوب دعائیں کریں۔ تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ان 9 دنوں میں قرآن کابھرپور مطالعہ کیا۔ اس میں بہت ساری نئی باتیں دریافت ہوئیں جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ اس دوران سورۃ الحجرات پڑھتے وقت مجھے احساس ہوا کہ رب تعالی مجھ پر رحم فرمائے ، میری زندگی بالکل اس کے خلاف چل رہی ہے۔ اس پورے اعتکاف کا میراسبق ( takeaway) یہ رہا کہ اب مجھے قرآن کی تلاوت کے ساتھ قرآن فہمی پر بہت محنت کی ضرورت ہے۔(ساجد احمد خان ، سی پی ایس ناگپور)
■ Dear Maulana Wahiduddin Khan, I have always benefitted from your literature, which is replete with spiritual inspiration, rational arguments and balanced analysis. It provides confidence to the reader and tells him how to overcome frustrations. It especially lays emphasis on engaging in self-introspection, which has been totally abandoned by the Muslim ummah. On 22nd Ramadan this year, I delivered a lecture in Brescia in Italy. My topic was ‘Ramadan and Dawah’. I spoke of all your major points on dawah, its real importance as the mission of the Prophet and about the neglegence of the ummah in this regard. I also mentioned the instances of serious historical negligence on the part of Muslims with respect to dawah. The lecture really made the audience take a relook at their whole present religious structure and helped them understand how to base it on the spirit of dawah. (Dr. M. Khalid, Birmingham)
Due to my fascination with Maulana’s writings, I have been distributing Maulana’s Urdu Al-Risala, English Spiritual Message and Spirit of Islam since the year 2000. I have now expanded my area of distribution from selected persons to general people – one and all. As part of dawah work, I have also started door-to-door distribution of Pavitra Quran right from my local area to schools, colleges and hospitals of my town. By the grace of God, people’s response has been enthusiastic.
Here, I should not forget to acknowledge and admire the contribution of Sister Fathima Sarah. She sent me a bulk stock of Spirit of Islam during October 2016 for distribution in Indore. May God accept this effort. (Shakeel Ahmed, Indore)
■ دعوتی دورہ:ممبئی ٹیم تسلسل کے ساتھ دعوتی سفر کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا آنے والا دعوتی سفر درج ذیل کا ہوگا:
1۔ سہارنپور، یوپی، 20-21اکتوبر 2017 (رابطہ نمبر، ڈاکٹر محمد اسلم خان، 9997153735)
2۔ اورنگ آباد و جالنہ، مہارشٹر 10-11 فروری 2017(رابطہ نمبر مسٹر محبوب ہنتگی 9619163993، ڈاکٹر محمد جنید 9967480701)۔
■ ترجمۂ قرآن حاصل کریں:سی پی ایس انٹرنیشنل کا ایک اہم مقصد قرآن کے پیغام کی اشاعت اور اس کو گھر گھر پہنچانا ہے۔ اس سلسلہ میں سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ بکس سےترجمۂ قرآن (free of cost) دیا جاتا ہے۔ خواہش مند حضرات درج ذیل کے لنک پر جاکر فارم پر کرسکتے ہیں۔ ان کو بذریعہ پوسٹ قرآن بھیج دیا جائے گا:
ww.goodwordbooks.com/webform/order-free-quran
www.cpsglobal.org/content/order-free-quran
■ صدر اسلامی مرکز کے انگریزی مضامین اور سوال و جواب کے لیے درج ذیل ویب کو دیکھا جاسکتا ہے:
www.cpsglobal.org
www.alquranmission.org
www.spiritofislam.co.in/spiritnew
www.facebook.com/cpsinternational
www.facebook.com/maulanawkhan
www.quora.com/profile/Maulana-Wahiduddin-Khan-1
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment