Pages

Tuesday 1 August 2017

Al Risala | August 2017 (الرسالہ، اگست)

4

-معرفت قرآن

6

- قرآن کی سائنسی تفسیر

7

- دورِمعرفت

8

- ایمان بالغیب

9

- کائناتی عبادت

12

- سب سے بڑا المیہ

13

- نیچر ورشپ

14

- کائنات پر کنٹرول

15

- انسان کی بے اختیاری

17

- گاڈ پارٹکل

23

- خدا کی عظمت

25

- دوانتظامات

26

- گرہن ، خدائی معجزہ

31

- کی دریافت

33

- نیک وبد کی تمیز

35

- دورِ شرک، دورِ الحاد

41

- دورِ مواصلات

42

- پوشیدہ جنت

43

- زوج یا ہیبیٹاٹ

44

- کائنات کی معنویت

45

- زمین کی حفاظت

46

- کائنات کی وسعت

48

- تسخیرِکائنات


معرفت قرآن

قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں فطرت کے مظاہر کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مثلا پہاڑ کا حوالہ، بارش کا حوالہ ، وغیرہ۔ ان حوالوں کو علمی زبان میں مظاہر فطرت (phenomena of nature) کہا جاتا ہے۔مگر یہ حوالے اشارے کی زبان میں ہیں۔ ان کی تفصیلی واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کو انسان کی دریافت کردہ معلومات کی روشنی میں سمجھا جائے۔ اس حیثیت سے انسانی تحقیق کے ذریعہ ان فطری مظاہر پر جو دریافتیں ہوئی ہیں، وہ دریافتیں قرآن کی تفسیر کے لیے عملی ضرورت کے اعتبار سےاسی طرح اہم ہیں، جس طرح تفسیر قرآن کے دوسرے متفقہ مصادر ۔ مثلا شان نزول کی روایتیں، وغیرہ۔
اس سلسلے میں یہاں قرآن کی دو آیتیں قابل مطالعہ ہیں۔وہ آیتیں یہ ہیں: وَأَنْ أَتْلُوَ الْقُرْآنَ فَمَنِ اہْتَدَى فَإِنَّمَا یَہْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِینَ ۔ وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ سَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَتَعْرِفُونَہَا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (27:92-93)۔ یعنی اور یہ کہ میں قرآن کو سناؤں۔ پھر جو شخص راہ پر آئے گا تو وہ اپنے لئے راہ پر آئے گا اور جو گمراہ ہوا تو کہہ دو کہ میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہے، وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے، اور تمہارا رب اس سےبے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔
قرآن کے اس بیان پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں قرآن کی معرفت کا ایک اصول بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں فطرت کے مظاہر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ذکر اشاراتی زبان میں ہے۔ ان مظاہر فطرت میں جو معرفت کی بات موجود ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان اشارات کی تفصیل معلوم کی جائے۔ یہ تفصیل خود قرآن میں مذکور نہیں، وہ فطرت کے خارجی علم کا سائنسی مطالعہ کرنےسے معلوم ہوتی ہے۔ گویا کہ فطرت کا علم ان آیتوں کو سمجھنے کے لیے ان کی سائنسی تفسیرکی حیثیت رکھتا ہے۔
سیریکم آیاتہ فتعرفونھا میں ضمیر ھا کا مرجع آیا ت ہے۔ یہاں آیات سے مراد وہ تائیدی معلومات (supporting data) ہیں، جو مستقبل میں سائنسی مطالعے کے ذریعہ دریافت ہوں گی، اور قرآن کی آیت میں جو چیز اشارے کی زبان میں کہی گئی ہے، اس کو انسان تفصیل کی زبان میں جان لے گا۔ قرآن کی اس آیت میں سیریکم آیاتہ سے مراد قرآنی بیان کا وہ سپورٹنگ ڈیٹا (supporting data) ہے، جو بعد کو دریافت ہوگا، اور فتعرفونہا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ نشانیوں سے معرفت کے درجے میں واقف ہوجانا۔
مثلاً اس سلسلۂ بیان میں اوپر کی آیت میں پہاڑ کے بارے میں یہ کہا گیاہے : اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں، مگر وہ چل رہے ہیں جیسے بادل چلتے ہیں۔ یہ اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو محکم کیا ہے۔ بیشک وہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو (27:88)۔ یہ آیت قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں پہاڑوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بظاہر وہ پہاڑ زمین پر ساکن نظر آتے ہیں، مگر حقیقت کے اعتبار سےوہ زمین کے ساتھ چل رہے ہیں، جس طرح تم بادلوں کو چلتے ہوئےدیکھتے ہو۔ یہ ایک فطرت (nature) کا واقعہ ہے۔ لیکن ساتویں صدی میں انسان اس کو نہیں جانتا تھا۔ بعد کو فلکیاتی مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو زمین کی اپنے محور (axis)پر گردش کرنے سے پیش آتا ہے۔ گویا موجودہ زمانے کی یہ فلکیاتی دریافت قرآن کی آیت کو معرفت کے درجے میں قابل فہم بنا دیتی ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایک سائنسداں نے کہا:میری زندگی کا حاصل بحیثیت سائنٹسٹ اور جغرافیہ داں یہ ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ خالق کا شکر گزار ہوگیا ہوں۔سائنس داں جب قدرت کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر قدرت کی عظمت کا بے پناہ احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اندرونی وجود اس ہستی کے آگے جھک جاتا ہے جس نے اتنی بامعنی کائنات بنائی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں خدا کے انکار کا ذہن سائنس دانوں نے نہیں بنایا۔ یہ در اصل کچھ ملحد فلاسفہ تھے، جنھوں نے سائنسی دریافتوں کو غلط رخ دے کر اس سے خود ساختہ طور پر انکارِ خدا کا مطلب پیدا کیا۔ حالاں کہ یہ سائنسی دریافتیں زیادہ درست طور پر اقرارِ خدا کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ (ڈائری،1985 )
واپس اوپر جائیں

قرآن کی سائنسی تفسیر

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں تمام سائنسی مضامین موجود ہیں اور اِن حوالوں کو لے کر قرآن کی سائنسی تفسیرکی جاسکتی ہے۔ اِس معاملے میں کچھ لوگ اِس حد تک گئے ہیں جس کو صرف غیرعلمی نقطۂ نظر کہاجاسکتا ہے۔ مثلاًاُن کا یہ کہنا کہ أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (94:1)میں علم تشریح الابدان (anatomy)کا حوالہ ہے۔اور فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَکَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیدٌ (50:22)میں علم امراضِ چشم کا بیان ہے، وغیرہ۔
قرآن میں سائنسی مضامین کا یہ نظریہ بلاشبہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ قرآن ان معنوں میں ہرگز کوئی سائنسی کتاب نہیں۔ لیکن ایک اور اعتبار سے یہ بات بالکل درست ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی تحقیقات فہمِ قرآن میں مدد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ (21:30)۔ یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔ یہ بات پچھلے دور کا قاریٔ قرآن بھی ابتدائی طور پر جانتا تھا، مگر موجودہ زمانے کا قاریٔ قرآن جب اِس آیت کو سائنس کی نئی دریافتوں کے ساتھ ملا کرپڑھتا ہے تو وہ اس کی مزید تفصیل جان لیتا ہے۔اِس بنا پر قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
اِسی طرح سورہ یٰس میں یہ آیت ہے: وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ(36:40)۔ یعنی اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں۔ اِس آیت میں اجرامِ سماوی کی گردش کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے، اُسے قدیم زمانے کا قاریٔ قرآن بھی سمجھ سکتا تھا، لیکن آج کا ایک قاریٔ قرآن جب جدید سائنسی دریافتوں کو لے کر اِس آیت کو پڑھتا ہے تو وہ مزید اضافے کے ساتھ اِس آیت کو سمجھنے لگتاہے۔ اِس طرح قرآن کی صداقت کے بارے میں اس کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کی سائنسی تفسیر کا ایک تصور غلو پر مبنی ہے تو قرآن کی سائنسی تفسیر کا دوسرا تصور حقیقت پر مبنی ہے۔ پہلا تصور یقینی طورپر غلط ہے، اور دوسرا تصور یقینی طورپر درست۔
واپس اوپر جائیں

دورِمعرفت

حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں کہ کوئی چڑیابھی اگر فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے(وما یقلب طائر جناحیہ فی السماء إلا ذکر لنا منہ علما ) الطبقات الکبرى لابن سعد 2/354۔
بلاشبہ چڑیا کا فضا میں اڑنا قدرت الہی کی ایک عظیم نشانی ہے۔ قدیم زمانہ میں قدرت الہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاسکتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپرسمجھا جاسکتا ہے۔ اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لئے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔ ٹیک آف (take off) کے مقام پر بھی، اور لینڈنگ (landing)کے مقام پر بھی۔
اِس انفراسٹرکچر کے بغیر کوئی جہاز ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ مگر چڑیا کو فضا میں اڑنے کے لئے کسی خارجی انفراسٹرکچر کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے آپ ایک جگہ سے اڑتی ہے اور فضا میں تیرتی ہوئی دوسری جگہ اتر جاتی ہے۔ یہ بلاشبہ رب العالمین کی ایک عظیم نشانی ہے۔
موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔ اس نے چیزو ں کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک نیا فریم ورک دیا ہے۔ اِس سائنسی فریم ورک کی بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ جو چیز پہلے صرف پراسرار طورپر مانی جاتی تھی، اس کو اب مسلّمہ عقلی بنیاد(rationally accepted base) پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس زمانی تبدیلی نے معرفت اور یقین کے لئے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے۔
اس جدید سائنسی دور کی پیشین گوئی قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں ان الفاظ میں کی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (فصلت53:) یعنی آئندہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفا ق میں بھی اور ان کے اپنے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ یہ حق ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایمان بالغیب

قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (2:3)۔ یعنی ہدایت یاب لوگ وہ ہیں جو غیب پرایمان رکھتے ہیں۔ غیب پر ایمان کا معاملہ سادہ طورپر صرف عقیدے کا معاملہ نہیں ہے، وہ براہِ راست طورپر ہدایت کے معاملے سے جڑا ہوا ہے۔ جس آدمی کے اندر ایمان بالغیب کی صفت ہو، اُسی کو ہدایت ملے گی۔ جو آدمی ایمان بالغیب کی صفت سے محروم ہو، اس کو کبھی ہدایت ملنے والی نہیں۔ جب تمام حقیقتیں غیب میں ہو ں تو اعلی حقیقت کی دریافت کا معاملہ اس سلسلے میں استثنا (exception) نہیں ہوسکتا۔
غیب کا لفظ عربی زبان میں صرف غیر مشہود (unseen)کے معنی میں نہیں ہے۔ غیب کا لفظ ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو اگرچہ غیر مشہود ہو، مگر وہ غیر موجود نہ ہو، یعنی جب ایک چیز موجود ہوتے ہوئے دکھائی نہ دے تو اس کے لیے غیب کا لفظ بولا جائے گا۔ اللہ کا معاملہ یہی ہے۔ اللہ اگر چہ بظاہر غیب میں ہے، مگر بہ اعتبار حقیقت ، وہ تمام موجود چیزوں سے زیادہ موجود ہے۔ اِس آیت میں ایمان بالغیب سے اصلاً ایمان باللہ مراد ہے، مگر تبعاً اِس میں وہ تمام متعلقاتِ ایمان شامل ہیں جن پر ایک مومن کے لیے ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلاً وحی، ملائکہ، جنت اور جہنم، وغیرہ۔
اصل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو دو طریقوں سے جانتے ہیں — ایک، مشاہدہ (observation)، اور دوسرا استنباط (inference)۔ سائنسی اعتبار سے، یہ دونوں طریقے یکساں طورپر معتبر ہیں۔ اعتباریت (validity) کے لحاظ سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
موجودہ زمانے میں سائنس کو علمی مطالعے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنس کے دو حصے ہیں — ایک ہے، نظری سائنس (theoretical science) ، اور دوسرا ہے، فنی سائنس (technical science)۔ سائنسی مطالعے کے مطابق، فنی سائنس کا دائرہ بہت محدود ہے۔ فنی سائنس کے ذریعے چیزوں کے صرف ظواہر (appearance)کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن تمام چیزیں جو بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں غیر مرئی (unseen) ہوجاتی ہیں۔ مثلاً آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو کو آپ نہیں دیکھ سکتے۔ پھول کی خوشبو کو کسی بھی خورد بین (microscope) یا دور بین (telescope) کے ذریعے دیکھنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ جس طرح پھول کا وجود ہے، اِسی طرح پھول کی خوشبو کا بھی وجود ہے۔
سائنسی مطالعے کے مطابق، تمام چیزیں آخر کار ایٹم کا مجموعہ ہیں، اور ایٹم اپنے آخری تجزیے میں الیکٹران (electron) کا مجموعہ ہے۔ ایک سائنس داں نےاِس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کائنات ناقابلِ مشاہدہ الیکٹران کا مجنونانہ رقص (mad dance of electrons) ہے۔ ایک اور سائنس داں نے کائنات کی ا ِسی غیر مرئی حیثیت کی بنا پر کائنات کو امکان کی لہروں (waves of probability) سے تعبیر کیا ہے۔
اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگاکہ صرف بظاہر غیر مشہود خالق (Creator) ہی غیب میں نہیں ہے، بلکہ بظاہر مشہود تخلیق (creature) بھی حالتِ غیب میں ہے۔ برٹش سائنس داں سرآرتھر ایڈنگٹن (وفات 1944:) نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:
Science and the Unseen World by A. S. Eddington, Macmillan, 1929, pages 91
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم اُن کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، چیزوں کی اصل حقیقت ہمارے لیے پھر بھی غیر مشہود رہتی ہے۔ یہی معاملہ خدا کا ہے۔ خدا اپنی ذات کے اعتبار سے، بظاہر غیر مشہود ہے، لیکن اپنی تخلیق کے اعتبار سے، خدا ہمارے لیے مشہود بن جاتا ہے۔ تخلیق کا موجود ہونااپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ کائنات اتنی زیادہ بامعنی (meaningful) ہے کہ خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا ایک اعتبار سے امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے۔ اللہ اگر عیاناً دکھائی دے تو امتحان کی مصلحت ختم ہوجائے گی۔ اللہ غیب میں ہے، اِسی لیے اُس پر ایمان ہمارے لیے ایک امتحانی پرچہ (test paper) ہے۔ اللہ اگر شہود میںہوتا تو اس پر ایمان لانا انسان کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ نہ بنتا۔ اللہ کا اور اس سے متعلق ایمانیات کا غیب میں ہونا انسان کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے انسان کے ذہن میں غور وفکر کا عمل (process of thinking)جاری ہوتا ہے۔ اِسی کی بنا پر ایسا ہے کہ ہمارے لیے تدبر کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا میدان موجود ہے۔ اِسی بنا پر ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو دریافت (discovery) کے درجے میں پائیں۔ اِسی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خدا کی معرفت ہمارے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) ہو، اور بلاشبہ یہ ایک واقعہ ہے کہ خود دریافت کردہ حقیقت سے زیادہ بڑی کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں۔ اللہ کا اور اُس سے متعلق ایمانیات کا انسان کے لیے غیب میں ہونا، انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک لامتناہی ذریعہ (endless source) کی حیثیت رکھتا ہے۔
ہدایت کے لیے ایمان بالغیب کی شرط کوئی تحکُّمی (arbitrary) شرط نہیں ہے، بلکہ وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے ایک نہایت معقول شرط ہے۔ کسی بھی بڑی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ بیدار شعور (awakened mind) درکار ہوتا ہے۔ جس انسان کا شعور بیدار ہو، وہی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی حقیقت کو سمجھ سکے۔ خدا بلا شبہ سب سے بڑی حقیقت ہے، اِس لیے خدا پر ایمان یا خدا کی معرفت حقیقی طورپر صرف اُس انسان کو حاصل ہوگی جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے شعور کو بیدار کرچکا ہو۔ جس انسان کا شعور بیدار نہ ہو، وہ گویا ذہنی اندھے پن (intellectual blindness)میں مبتلا ہے، اور بلا شبہ ذہنی اندھے پن کے ساتھ خداوند عالم کی معرفت کسی انسان کو نہیں مل سکتی۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
دنیا میں کامیابی فطرت کے مطابق عمل کا دوسرانام ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ناکامی یہ ہے کہ آدمی فطرت کے نظام سے مطابقت نہ کر سکے ۔
واپس اوپر جائیں

کائناتی عبادت

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (45:13)۔ یعنی اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے ۔ بےشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں ۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اس کائناتی تسخیر کا مقصد کیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے ، کائنات کی وسعت لامحدود حد تک زیادہ ہے۔ اتنی بڑی کائنات انسان کی رہائش گاہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ انسان اتنی بڑی کائنات کو اپنا رزق بنا ئے۔ پھر اس طرح کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ساری کائنات انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
قرآن کی دوسری آیتوں، مثلاً سورہ آل عمران کی آخری رکوع کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے۔ یہ غور کرنا ، لُبّ (عقل ) کے ذریعے ہوتا ہے ، نہ کہ کسی جسمانی عمل کے ذریعے۔ قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نشانیاں (signs) اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی کوئی گنتی نہیں ہوسکتی۔ یہی وہ لامحدود کائناتی نشانیاں ہیں جن پر عقل سے تدبر کرکے انسان اپنے رب کی کائناتی عبادت کرتا ہے۔
یہ صرف انسان ہے جو یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ کائناتی نشانیوں میں تدبر (contemplation) کرے۔ یہ تدبر پہلے روایتی فریم ورک میں کیا جاسکتا تھا۔ اب تدبر کا یہ عمل سائنسی فریم ورک میں کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اس طرح انسان اللہ کی بے پایاں عظمت کو دریافت کرتا ہے۔ وہ اللہ سے حبّ شدید اور خوفِ شدید کا تعلق قائم کرتا ہے۔ وہ آخرت کی ابدی جنت کو اپنے تصور میں لاتا ہے۔یہی تدبر ہے، اور اسی تدبر کو کائناتی عبادت کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑا المیہ

انسانی تاریخ کا شاید سب سے بڑا المیہ (tragedy) یہ ہے کہ انسان معرفت اعلیٰ کے حصول سے محروم رہا۔ خدا کی معرفت کا ذریعہ، خدا کی تخلیقات میں غور و فکر کرناہے۔ جدید سائنسی دور سے پہلے انسان تخلیقاتِ الٰہی کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ چناں چہ قدیم زمانے میں معرفت اعلیٰ تک پہنچنے کے لئے فریم ورک ہی موجود نہ تھا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد انسان کو اعلیٰ فریم ورک حاصل ہوا۔ جس کی پیشگی خبر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (41:53)۔ لیکن موجودہ زمانے میں جب یہ آفاقی یا سائنسی فریم ورک ظہور میں آیا تو عین اُسی وقت تمام دنیا کے مسلمان سیاسی رد عمل کے نتیجے میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے۔ اس طرح وہ مثبت سوچ سے محروم رہے۔
قدیم زمانے کے انسان کے لیےسائنسی فریم ورک نہ ہو نے کی بنا پر معرفتِ اعلیٰ تک پہنچنا مشکل تھا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی فریم ورک کے ظہور کے باوجود انسان معرفتِ اعلیٰ تک نہیں پہنچا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ موجودہ زمانے کا انسان مثبت سوچ سے محروم ہو گیا۔ یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اللہ کی معرفت اعلی کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ معرفت اعلی تک پہنچ سکے۔ لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو منفی سوچ سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ ہر حال میں مثبت سوچ میں جینے والا بنے۔ جو لوگ اس شرط کو پورا کریں وہ یقینا معرفت اعلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بیشتر انسان کسی نہ کسی بات کو لے کر منفی سوچ کا شکار ہوگیے۔ وہ مثبت سوچ (positive thinking) پر قائم نہ رہ سکے۔ اس بنا پر وہ معرفت کا وعایہ (container) نہیں بنے۔ معرفت اعلی سے محرومی کی یہی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

نیچر ورشپ

توحید کیا ہے۔ اس کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (41:37)۔یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ تم سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا، اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔
قدیم زمانے میں نیچر ورشپ (nature worship) کا رواج چھایا ہوا تھا۔نیچر ورشپ کے کلچر میں قدیم انسان اتنا زیادہ مسحور ہوگیا تھا کہ وہ پیغمبروں کی لمبی کوشش کے باوجود اس کے سحر سے نہ نکل سکا۔ اس منفی تجربے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق، پیغمبر ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ خصوصی تربیت کے ذریعہ ایک نئی قوم بنا ئی جائے۔ جو اپنی فطرت پر قائم ہو۔
وہ منصوبہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم عراق کو چھوڑ کر اس صحرائی مقام پر جائیں، جہاں اب مکہ آباد ہے، اور یہاں اپنےبیٹے اسماعیل اور اپنی بیوی ہاجرہ کو آباد کریں۔ یہ مقام اس زمانے میں نیچر ورشپ کے ماحول سے بہت دور تھا۔
اس حقیقت کا ذکر پیغمبر ابراہیم کی دعا میں ان الفاظ میں ملتا ہے: رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیرًا مِنَ النَّاسِ (14:35-36)۔ یعنی اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا۔ اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ یہ نیچر ورشپ اس وقت پوری طرح ختم ہوگئی، جب کہ سائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ نیچر عامل نہیں ہے، بلکہ وہ معمول ہے۔یعنی نیچر (فطرت) کسی بڑی طاقت کے کنٹرول میں ہے، اس کی اپنی کوئی طاقت نہیں۔ اس تحقیق نے نیچر کو معبودیت کے مقام سے ابدی طور پر ہٹادیا۔
واپس اوپر جائیں

کائنات پر کنٹرول

قرآن کی پہلی آیت یہ ہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ(1:2)۔یعنی ساری حمد اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ یہ دراصل وہ کلمہ ہے جو آدمی کی زبان سے اُس وقت بے اختیارانہ طورپر نکل پڑتا ہے، جب کہ وہ کائنات کا مشاہدہ کرے۔ دور بینی مشاہدہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابلِ قیاس حد تک وسیع اور عظیم ہے۔ دوسری طرف، خورد بینی مطالعہ بتاتاہے کہ ناقابلِ مشاہدہ کائنات بھی اتنا ہی زیادہ عظیم ہے جتنا کہ قابلِ مشاہدہ کائنات۔ ساری ترقیوں کے باوجود ابھی تک انسان نہ کائنات کی وسعتوں کا اندازہ کرسکا ہے اور نہ وہ کائنات کی عظمتوں کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔
یہ وسیع اور عظیم کائنات مسلسل طورپر متحرک ہے۔ اس کے اندر ہر لمحہ انتہائی با معنی قسم کی سرگرمیاں (meaningful activities)جاری ہیں۔ مطالعہ مزید بتاتاہے کہ یہ اتھاہ کائنات مکمل طور پر ایک بے نقص کائنات (faultless universe) ہے۔ بے نقص حالت میں کائنات کا اِس طرح قائم رہنا صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اِس نظام میں کوئی ادنیٰ تغیّر (alteration) نہ آئے۔ کائنات کے اندر ایک ادنیٰ تغیر بھی اس کے پورے نظام کو درہم برہم کرسکتا ہے۔
جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات ناقابل قیاس حد تک وسیع ہونے کے باوجود آخری حد تک ایک ہم آہنگ (harmonious)کائنات ہے۔ وہ مکمل طورپر ایک واحد فورس سے کنٹرول ہورہی ہے۔ اس کے تمام اجزاء ایک دوسرے سے کامل طور پر جڑے ہوئے ہیں۔
کائنات کی اِس عالمی ہم آہنگی پر تمام سائنس داں حیرت زدہ ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس غیر معمولی ہم آہنگی کی توجیہہ کس طرح کی جائے۔ کائنات کے اندر یہ بے پناہ نظم اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کائنات ایک قادرِ مطلق خدا کے زیرانتظام ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پوری کائنات ایک لمحے کے اندر منتشر ہو کر رہ جائے۔ کائنات کے اندر یہ کامل ہم آہنگی صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ اُس کا ناظم اپنے اندر قدرتِ کاملہ کی صفت رکھتا ہو۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی بے اختیاری

برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیںگئی تھی:
It appears that man has strayed in a world which was not made for him.
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔
It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he its controller.
اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔
انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔
انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ اختیار مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔
انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے لیے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے ہر معاملے پر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے لیے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے لیے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، فطری طور پر اس کا رسپانس (response) وہی ہوگا، جس کا ذکر قرآن کے ابتدا میں ان الفاظ میںا ٓیاہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:2)۔ یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے لیے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میںمومن کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

گاڈ پارٹکل

گاڈ پارٹکل (God Particle) کیا ہے۔ گاڈ پارٹکل کا مطلب خدائی ذرہ نہیں، گاڈ پارٹکل دراصل ایک سائنسی مسئلے کی سائنسی تشریح (scientific description) ہے۔ گاڈ پارٹکل کا تصور دراصل خدا کا مشینی بدل (mechanical substitute of God) ہے۔ گاڈ پارٹکل کی دریافت کا براہِ راست طورپر مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔
God Particle: The Standard Model of physics is used by scientists to explain the building blocks of the universe. According to this model the universe began with a big bang. The Big Bang theory is widely accepted within the scientific community. This theory states that 13.7 billion years ago the universe was in the shape of a very dense and compact cosmic ball. Then an explosion occurred in this compact ball, and all its constituents started flying apart with the speed of light. All the particles released from this cosmic ball were drifting apart from each other at the speed of light, which is the maximum speed of any object in the universe. Everything in the universe is made up of atoms. These atoms are in turn made up of electrons and protons. But, after the explosion of the Big Bang, electrons and protons were speeding away from each other. These particles could bind together to form atoms only if their speed was decreased. And their speed could be decreased only by being given mass. This is why the Higgs boson is so important. Higgs boson is a subatomic particle. Physicists say its job is to give mass to the particles that make up atoms. Atoms then combined to form molecules, then molecules combined to form compounds, and these compounds gave rise to all the constituents of the universe as it exists today. If the Higgs Boson were taken away, the particles which make up atoms, would have zipped through the cosmos at the speed of light, unable to join together to form the atoms that make up everything in the universe, from planets to people. Then all creation would be unthinkable.
4 جولائی 2012 کو سائنس دانوں نے ایک دریافت کا اعلان کیا۔ اس کو نیرڈسکوری (near discovery)کہاجاتاہے۔ یہ دراصل ایک سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) کی دریافت ہے جس کے بارے میں پچھلے تقریباً 50 سال سے ریسرچ ہورہی تھی۔ اِسی درمیان 1993 میں ایک امریکی سائنس داں لیان لیڈرمین (Leon Lederman) نے ایک کتاب تیار کی۔ اس کا ٹائٹل اس نے گاڈ ڈیم پارٹکل (Goddamn Particle)تجویز کیا۔اُس وقت تک یہ پارٹکل ایک پراسرار پارٹکل بنا ہوا تھا۔لیان لیڈر مین اپنی کتاب میں اِس پارٹکل کا کوئی واضح تصور نہیں دے سکا تھا۔ اس نے جھنجھلاہٹ میں اپنی اِس کتاب کا نام ’گاڈڈیمن پارٹکل‘ رکھ دیا۔’گاڈڈیمن‘ ایک بگڑا ہوا نام ہے۔ اردو میں کہتے ہیں خدا کی لعنت۔ خراب موسم ہو تو کہا جائے گا،گاڈ ڈیمن ویدر (Goddamn weather)۔ پبلشر کو کتاب کا یہ نام پسند نہیں آیا۔ اس نے بطور خود ’ڈیمن‘ کا لفظ نکال دیا اور کتاب کو ’گاڈ پارٹکل‘ کے نام سے چھاپ دیا۔ اُس وقت سے عوامی طورپر اِس ذرے کو گاڈ پارٹکل کہاجانے لگا۔ تاہم سائنس دانوں کے نزدیک اِس ذرّے کا نام ہگس بوزان (Higgs Boson) ہے۔
بوزان کا لفظ دراصل ’بوس‘ کے نام سے لیا گیا ہے۔ ستیندرناتھ بوس (SN Bose) ایک انڈین سائنس داں تھے۔ ان کی وفات 1974میں ہوئی۔ انھوں نے 1924 میں ’سب ایٹمک پارٹکل‘(behaviour of subatomic particles) کے بارے میں ایک پیپر تیار کیا تھا۔ اس پیپرکو البرٹ آئن سٹائن (وفات 1955:) اور دوسرے سائنس دانوں نے بہت پسند کیا تھا۔ اُس وقت سے اِس پارٹکل کا نام بوزان (boson)پڑ گیا ہے۔ اِس مخصوص پارٹکل کو ’بوزان‘ کا نام سب سے پہلے برٹش سائنس داں پال ڈیراک (Paul Dirac) نے دیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک سائنس داں پیٹر ہگس (Peter Higgs) نے 1964 میں اِس موضوع پر زیادہ واضح انداز میں ایک مفصل پیپر تیار کیا ، جس کا ٹائٹل یہ تھا:
Broken Symmetries and the Masses of Gauge Bosons
اس وقت سے زیر ِ تلاش پارٹکل کو ہگس بوزان کہاجانے لگا۔ سائنسی نقطہ نظر سے ہگس بوزان کی اہمیت بہت زیادہ تھی، اِس لیے وہ ساری دنیا کے سائنس دانوں کے لیے تلاش کا موضوع بن گیا۔ آخر کار 1998 میں اِس موضوع کی تحقیق کے لئے ایک خصوصی سرنگ بنائی گئی۔ اِس سرنگ کو ایک یورپین ادارہ نے تیار کیا تھا۔ اس کا نام یہ ہے:
European Oganization for Nuclear Research
اِس سرنگ کا نام یہ ہے — لارج ہیڈرون کولائڈر(Large Hadron Collider) ۔ اِس پروجیکٹ میں دنیا کے ایک سو ملک شریک ہوئے اور 10 ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں نے اِس میں کام کیا۔ 4 جولائی 2012 کو اس پروجیکٹ کے نتیجہ (result) کا اعلان کیا گیا۔ سائنس دانوں نے اعلان کیا کہ اِس تحقیق میں وہ ’نیر ڈسکوری‘ تک پہنچ گئے ہیں۔
’ہگس بوزان‘ دراصل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کا ایک گم شدہ پارٹکل ہے جو اِس بات کی توجیہہ کرتا ہے کہ ابتدائی انفجار کے بعد کائنات کیسے وجود میں آئی۔ فزکس کے اسٹینڈر ماڈل کو سائنس داں کائنات کے بلڈنگ بلاک (building block) کی توجیہہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اِس ماڈل کے مطابق، کائنات کا آغاز بگ بینگ سے ہوا۔ بگ بینگ کا نظریہ سائنس دانوں کے نزدیک عمومی طورپر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یہ نظریہ بتاتا ہے کہ 13 بلین سال پہلے کائنات ایک بہت بڑے کاسمک بال کی صورت میں تھی۔ کائنات کے تمام پارٹکل اس کے اندر شدت سے باہم پیوست تھے۔ پھر اِس کاسمک بال میں ایک انفجار ہوا اور اس کے تمام اجزا چاروں طرف روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے۔ روشنی کی رفتار معلوم طورپر سب سے زیادہ ہے جو ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکنڈ ہوتی ہے۔ کاسمک بال سے جو پارٹکل خارج ہوئے، وہ نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے۔ہر چیز جو اِس کائنات میں ہے، وہ ایٹم سے بنی ہے۔ یہ تمام ایٹم الیکٹران اور پروٹان کے ملنے سے بنتے ہیں۔ ضرورت تھی کہ یہ تمام پارٹکل باہم ملیں، لیکن بگ بینگ کے انفجار کے بعد الیکٹران اور پروٹان بھاگ رہے تھے، کیوں کہ اُن میں کمیت (mass) نہیں تھی۔ یہ ذرات باہم مل کر ایٹم کو صرف اُس وقت بنا سکتے تھے جب کہ ان کی رفتار کم ہو، اور ان کی رفتار صرف اُس وقت کم ہوسکتی تھی جب کہ ان کے اندر کمیت پیدا ہوجائے۔
ہگس بوزان کی اہمیت یہ ہےکہ وہ اِس سائنسی مسئلے کا جواب فراہم کرتاہے۔ ہگس بوزان ایک سب ایٹمک پارٹکل کا نام ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، ہگس بوزان کا کام یہ ہے کہ وہ ایٹم کے پارٹکل کو کمیت عطا کرے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایٹم مل کر مالی کیول (molecule) بنائیں اور پھر مالی کیول کے بننے سے کمپاؤنڈ بنے۔ پھر کمپاؤنڈ کے ملنے سے وہ تمام چیزیں بنتی ہیں جوکہ اِس وقت کائنات میں موجود ہیں۔اگر ہگس بوزان نہ ہوتے تو پارٹکل میں کمیت پیدا نہ ہوتی جو کہ باہم مل کر ایٹم بناتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ تمام پارٹکل روشنی کی رفتار سے خلا میں سفر کرنے لگتے، پھر یہ ناممکن ہوجاتا کہ وہ باہم مل کر ایٹم بنائیں اور اس کے بعد کائنات کی تمام چیزیں وجود میں آئیں، ستاروں سے لے کر سیاروں تک اور غیر ذی روح اشیا سے لے کر ذی روح اشیا تک۔
قرآن کی تصدیق
قرآن کی ایک آیت ہے:أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیرًا(4:82)۔ یعنی کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اُس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا۔ یہ سائنس کی دریافتوں سے بہت پہلے کا زمانہ تھا۔ اِس قبل دریافت زمانے میں قرآن کی اِس آیت کا اترنا گویا یہ دعوی کرنا تھا کہ بعد کی دریافت شدہ حقیقتیں قرآن کے عین مطابق ہوں گی، قرآنی بیانات اور دریافتوں کے درمیان کبھی عدم مطابقت (inconsistency) نہ ہوگی۔ اِس طرح یہ واقعہ اِس بات کی تصدیق ہوگا کہ قرآن عالم الغیب کی کتاب ہے، کیوں کہ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی پیشگی طورپر اِن حقیقتوں کو نہیں بتا سکتا تھا۔
اِس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا تصور اور ہگس بوزان کا تصور پیشگی طورپر قرآن میں موجود تھا۔ اِس سلسلے میں قرآن کی سورہ الانبیاء کی درج ذیل آیت کا مطالعہ کیجئے: أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (21:30)۔ یعنی کیا انکار کرنےوالوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے اُن کو کھول دیا۔ اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا۔ کیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
قرآن کی اِس آیت میں تخلیق کے تین مرحلوں کا ذکر ہے — پہلے مرحلے کو ’رتق‘ کہاگیا ہے۔ رتق کا مطلب ہےمنضم الأجزاء یعنی کائنات کے تمام پارٹکل کا باہم جڑاہوا ہونا۔ اِس میں کاسمک بال کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ دوسرے مرحلے کو قرآن میں ’فتق‘ سے تعبیر کیا گیاہے۔ فتق کا مطلب ہے: الفصل بین المتصلین، یعنی باہم ملی ہوئی چیزوں کا ایک دوسرے سے الگ ہوجانا۔ اس میں بگ بینگ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ اِس کے بعد تیسرے مرحلے میں پانی (الماء) کے بننے کا ذکر ہے۔ یہاں پانی کا ذکر علامتی طورپر ہے، یعنی پانی اور دوسری تمام چیزیں۔
پانی ایک جوہری مادہ(substance) ہے۔ اِس طرح کے بہت سے جوہری مادّے کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ پانی ہائڈروجن کے دو ایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے ملنے سے بنتا ہے۔ یہی معاملہ دوسری تمام مادّی چیزوں کا ہے۔ ہر چیز ایٹم کے ملنے سے بنی ہے، اور ایٹم اُس وقت بنا جب کہ اس کے پارٹکل میں کمیت (mass) پیدا ہوئی۔ اِس طرح، اِس آیت میں پانی کا ذکر کرکے اِس نوعیت کی دوسری تمام مادی چیزوں کی طرف اشارہ کردیاگیا ہے، یعنی ’فتق‘کے واقعے کے بعد تمام پارٹکل میں کمیت کا پیداہونا اور پھر پارٹکل کا مجتمع ہو کر تمام چیزوں کا وجود میں آنا۔
قرآن، سائنس کی کتاب نہیں ہے، البتہ قرآن میں مظاہر فطرت کے بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جو کہ سائنس کا موضوع تحقیق ہیں۔ قرآن کا مقصد صرف یہ ہے کہ فطرت میں موجود آیات (signs) کا حوالہ دے کر قرآن کی آئڈیالوجی کو علمی طورپر ثابت کرنا۔ اِس طرح قرآن میں فطرت کے بہت سے مظاہر کے متفرق حوالے (fragmentary references)دئے گئے ہیں۔ اِن حوالوں کے بارے میں قدیم زمانے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ گویا کہ قرآن میں یہ حوالے مستقبل کی انسانی نسلوں کو شامل کرتے ہوئے دئے گئے تھے۔ اِس طرح انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ قرآن کے اِن حوالوں کا تقابل بعد کے حالات سے کرکے قرآن کی صداقت کی تصدیق حاصل کرے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
چودھویں صدی ہجری اسلام کی پو ری تاریخ میں پہلی صدی تھی جب کہ یہ امکان پیدا ہوا تھا کہ اسلام کی دعوت تو حید کی یُسر (آسانی) کے حالات میں انجام دیا جائے جب کہ اس سے پہلے صرف عُسر (سختی) کے حالات ہی میں اس کو انجام دینا ممکن ہو تا تھا۔ اسی طرح یہ واقعہ بھی پہلی بار ہوا کہ خود انسان کے اپنے مسلّمات کے مطابق اسلام کا دیگر ادیان کے مقابلہ میں واحد معتبر دین ہو نا ثابت کیا جائے اوراس کو اعلیٰ ترین علمی شواہد سے اس طرح مد لّل کردیا جائے کہ کسی کے لئے انکار کا عذر باقی نہ رہے۔ نیز اس صدی میں پہلی بارتیز رفتار سواریاں اور تبلیغ کے جدید ذرائع انسان کے قبضہ میں آئے جن سے کام لے کر اسلام کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر پھیلایا جا سکتا تھا۔ مگر جو قومیں ان خدائی برکتوں کو ہماری طرف لارہی تھیں وہ اتفاقی حالات کے نتیجہ میں ہماری سیاسی حریف بن گئیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساری مسلم دنیا مغرب کے بارے میں مخالفانہ نفسیات کاشکار ہو گئی، مغرب کی طرف سے آنے والے انقلاب کا افادی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ حالاں کہ خدا نے مسلمانوں کے لئے ایسا دروازہ کھولا تھا کہ خود مغرب کے پیدا کردہ حالات دعوتی مقاصد میں استعمال کر کے مغرب کو نظریاتی طور پر فتح کر سکتے تھے۔ اگر مسلمانوں نے بر وقت اس دانشمندی کا ثبوت دیا ہو تا تو چودھویں صدی ہجری میں وہ واقعہ دوبارہ نئے انداز سے پیش آتا جو آٹھویں صدی ہجر ی میں تاتاری فا تحین کے خادمان اسلام بن جا نے کی صورت میں پیش آچکاہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی عظمت

خدا کی معرفت ایمان اور اسلام کی اساس (basis) ہے۔ جتنی اعلیٰ معرفت، اتنا ہی اعلیٰ ایمان۔ اِس معرفت کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آپ خدا کو اس کے کمالِ عظمت کے ساتھ دریافت کریں۔ ایک بندہ جب خدا کو اس کی عظمتوں کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کا وہی حال ہوتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ (8:2) ۔ یعنی خدا کی یاد سے اُن کے دل دہل اٹھتے ہیں۔جدید فلکیاتی سائنس (modern astronomy) کا اِس معاملے میں ایک مثبت کنٹری بیوشن (contribution) یہ ہے کہ اس نے خالق کی ناقابلِ قیاس عظمت کا ادراک کرنے کے لیے ایک فریم ورک (framework) دے دیا ہے۔ اِس فریم ورک کی مدد سے انسان خدا وند ذوالجلال کی ناقابلِ بیان عظمت کا ایک تصور اپنے ذہن میں لاسکتا ہے۔
جدید سائنس کئی سوسال سے فلکیات کامطالعہ کررہی ہے۔ 1608ء میں دور بین (telescope) کی ایجاد ہوئی، اور 1609میں پہلی بار اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (Galileo) نے خلا کا دوربینی مشاہدہ کیا۔ یہ فلکیاتی مشاہدہ برابر بڑھتا رہا۔ پچھلے زمانے میںدور بینی رصد گاہ کسی پہاڑ پر نصب کی جاتی تھی۔ اب خلائی سائنس کا زمانہ آگیا ہے۔ اب انسان نے خلائی رصد گاہ (space observatory) بنالی ہے۔ اِس کے ذریعے کائنات کا مشاہدہ اتنی زیادہ دور تک کرنا ممکن ہوگیاہے جس کی دوری کو صرف سالِ نور (light years) کی اصطلاح میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اِس طرح خدا کی عظمت کو تصور میں لانے کے لیے ایک نیا وسیع تر دائرہ انسان کے علم میں آگیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک تازہ ترین فلکیاتی دریافت (discovery) سامنے آئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ خلا میں نصب الکٹرانک دور بینوں کے ذریعے ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت ہوا ہے۔ یہ بلیک ہول پورے نظامِ شمسی (solar system) کو نگل سکتا ہے۔ نظام شمسی کا دائرہ کتنا زیادہ بڑا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے اِس نظام کا بعید ترین سیارہ پلوٹو (Pluto) ہے جو سورج کے گرد بیضوی دائرے میں چکر لگا رہاہے۔ یہ دائرہ ساڑھے سات بلین میل پر مشتمل ہے۔
مذکورہ بلیک ہول اب تک کے دریافت کردہ تمام بلیک ہول سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کا حجم 6 بلین سورج سے بھی زیادہ ہے۔ اِس بلیک ہول کا نام M 87 رکھا گیاہے۔ یہ بلیک ہول ہماری کہکشاں(Milky Way) سے 50 ملین سال نور کی دوری پر واقع ہے:
This black hole can eat the solar system: Astronomers have discovered what they say is the biggest ever black hole which weighs the same as 6.8 billion suns and could swallow our entire solar system. According to the scientists, the black hole, identified as M87, is as large as the orbit of Neptune and is by far the largest and most distant galaxy in the nearby universe. As a point of comparison, the black hole at the centre of the Milky Way is 1,000 times smaller than this one which has been observed some 50 million light years away. (The Times of India, New Delhi, Tuesday, January 18, 2011 Page 19)
یہ واقعہ اور اِس طرح کے دوسرے واقعات معرفتِ الٰہی کے لیے عظیم خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ واقعات خدا کی قدرت کو ناقابلِ قیاس حد تک عظیم بنادیتے ہیں۔ جو آدمی اِن واقعات پر سوچے گا، اس کا دل خدا کی عظمت کے تصور سے دہل اٹھے گا، اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ واقعات ایک انسان کو اپنے بارے میں انتہائی عجز اور خدا کے بارے میں انتہائی قدرت کی یاد دلاتے ہیں۔ اِن واقعات پر غور کرنا بلاشبہ اعلیٰ معرفت کے حصول کا کائناتی خزانہ ہے۔
معرفت یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنی محدودیت (limitation) کو جانے اور دوسری طرف وہ خدا کی لامحدودیت کو دریافت کرے۔ اِس دریافت کے نتیجے میں جو کیفیت آدمی کے اندر پیداہوتی ہے، اُسی کا نام معرفت ہے۔ یہ معرفت جس کو حاصل ہو جائے، اس کے لیے گویا دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کے دروازے کھل گئے۔ یہی وہ خوش قسمت انسان ہے جس کے بارے میں آخرت میں کہاجائے گا — تم جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہو، جنت میں داخل ہوجاؤ۔ آج کے بعد تمھارے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن۔
واپس اوپر جائیں

دوانتظامات

انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی عنایات کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ عنایتیں بنیادی طورپر دو قسم کی ہیں۔ اُن میں سے ایک کو قرآن میں احسنِ تقویم (التین4:) کہاگیا ہے۔ اور دوسری عنایت کے لیے قرآن کی اِس آیت میں اشارہ ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ (14:34) یعنی خدا نے تم کو وہ سب کچھ دیا جو تم نے اُس سے مانگا۔
احسنِ تقویم کو قرآن میںدوسری جگہ صورتِ احسن (الزمر64:) کے لفظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو نہایت موزوں جسم دیاگیا ہے۔ انسانی جسم بہت سے آرگن (organs) یا نظامات کا مجموعہ ہے۔ مثلاً دیکھنے کا نظام، سننے کا نظام، سانس لینے کا نظام، بولنے کا نظام، ہضم کا نظام، گردشِ خون کا نظام، حرکت کا نظام، وغیرہ۔ انسان کی عمر جب بڑھتی ہے تو ایک ایک نظام معطّل ہونے لگتا ہے، یہاں تک کہ سارے نظام معطل ہوجاتے ہیں اور انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
دوسرا انتظام وہ ہے جو انسانی وجود کے باہر خارجی دنیامیں کیا گیا ہے۔ مثلاً روشنی اور حرارت کا نظام، ہوا کانظام، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، پانی اور بارش کا نظام، زراعت کا نظام، وغیرہ۔یہ خارجی نظامات انسانی زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ یہ نظامات اگر جزئی یا کلی طورپر معطل ہوجائیں تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
مذکورہ تقسیم میں دوسرے نظام کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح پہلے نظام کو آرگن سپورٹ سسٹم (organ support system)کہا جاسکتا ہے۔ اِنھیں دونوں انتظامات پر انسان کی زندگی قائم ہے۔ اِن دونوں انتظامات کو گہرائی کے ساتھ جاننا، آدمی کے لیے معرفت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں شکر کے اعلیٰ جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اِس سے آدمی کے اندر تمام مثبت صفات پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تواضع، سنجیدگی، اعترافِ حق، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

گرہن ، خدائی معجزہ

گرہن (eclipse)ایک فلکیاتی ظاہرہ ہے۔ اکلپس (eclipse) کا لفظ قدیم یونانی زبان کے لفظ (ékleipsis) سے ماخوذ ہے۔ خلا میں گرہن کے مختلف واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن معروف طورپر دو قسم کے گرہن کو گرہن کہا جاتا ہے۔ ایک سورج گرہن (Solar eclipse) اور دوسرا چاند گرہن (Lunar eclipse) ۔ عام طورپر سورج گرہن سال میں دوبار یا تین بار ہوتاہے اور چاندگرہن سال میں دو بار واقع ہوتا ہے۔ چاند گرہن چند گھنٹوں تک رہتا ہے، جب کہ کامل سورج گرہن کچھ منٹ تک رہتا ہے:
A lunar eclipse lasts for a few hours, whereas a total solar eclipse lasts for only a few minutes at any given place.
گرہن کا یہ واقعہ محکم فلکیاتی قانون کے تحت پیش آتا ہے۔ یہاں تک کہ بہت پہلے ان کی قطعی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر 2010 میں 15جنوری کو سورج گرہن ہوا۔ علماءِ فلکیات (astronomer) کی پیشگی خبر کے مطابق، پہلے سے لوگوں کو اِس گرہن کا علم تھا۔
گرہن کیا ہے۔ گرہن دراصل سایہ پڑ جانے کا دوسرا نام ہے۔ گردش کے دوران جب چاند، زمین اور سورج کے درمیان آجائے تو سورج اس آڑ کی بنا پر جزئی یا کلّی طورپر دکھائی نہیں دے گا۔ اِسی کا نام سورج گرہن ہے۔ اور جب زمین، چاند اور سورج کے درمیان آجائے تو چاند پر جزئی یا کلی طورپر زمین کا سایہ پڑجائے گا۔ اِسی کا نام چاند گرہن ہے:
Eclipse: In astronomy, partial or complete obscuring of one celestial body by another as viewed from a fixed point. Solar eclipses occur when shadow of Moon falls on Earth, which happens two or three times per year. Lunar eclipses occur when shadow of Earth falls on Moon; at most two seen per year.
قدیم زمانے میں گرہن کے بارے میں عجیب قسم کے توہماتی عقائد قائم تھے۔ مثلاً کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ آسمان میں ایک بہت بڑا اژدہا ہے، وہ کبھی غصہ ہو کر چاند کو نگل لیتاہے، اس وقت چاندگرہن پڑتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ زمین پر جب کسی بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی کا نام سورج گرہن ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کے توہماتی تصورات ہزاروں سال تک قوموں میں رائج تھے، یہاں تک کہ دور بین (telescope) ایجاد ہوئی۔ گلیلیو نے پہلی بار 1609 عیسوی میں دور بین کے ذریعہ سیاراتی نظام (planetary system) کا مشاہدہ کیا۔ اس کے بعد دور بین کو ترقی ہوئی اور مزید مشاہدات کیے گئے۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کا تعلق مذکورہ قسم کے توہماتی تصورات سے نہیں ہے، یہ تمام تر ایک فلکیاتی مظہر ہے۔وہ صرف اس لئے واقع ہوتا ہے کہ گردش کے دوران دو خلائی اجسام (celestial bodies) کے درمیان تیسرا جسم آجاتا ہے۔ اس کی بنا پر وہاں ایک آڑ قائم ہوجاتی ہے۔ اسی آڑ کی بنا پر پیش آنے والے واقعہ کا نام گرہن ہے۔
قدیم زمانے میں گرہن صرف ایک توہماتی (superstitious)واقعہ بنا ہوا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی مشاہدہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ یہ سادہ نوعیت کا ایک خلائی واقعہ ہے۔ اس واقعہ میں کوئی پُراسراریت شامل نہیں۔ گرہن کے موضوع پر موجودہ زمانے میں کثیر تعداد میں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
Eclipses of the Sun and Moon (1937) by Sir F.W. Dyson
Eclipse Phenomena in Astronomy (1969) by F. Link
Eclipses in the Second Millennium BC (1954) by G. Van Bergh
انسانی تاریخ میں گرہن کے تعلق سے تین دور ہیں۔ گرہن کی تاریخ کا پہلا دور وہ ہے جب کہ اس معاملے میں توہماتی عقائد کا رواج تھا۔ گرہن کا دوسرا دور اسلام کے ذریعہ انسان کے علم میں آیا۔ گرہن کی تاریخ کا تیسرا دور وہ ہے جوموجودہ زمانے میں دور بین کی ایجاد (1608ء) کے بعد شروع ہوا۔
اسلام نے گرہن کے تعلق سے جو بات بتائی، اس کے مطابق، گرہن کا تعلق نہ توہمات سے ہے اور نہ وہ صرف ایک مادی نوعیت کا فلکیاتی واقعہ ہے، بلکہ وہ خالقِ کائنات کے باشعور تخلیقی نظام کا ایک حصہ ہے۔ وہ خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک مظہر ہے، وہ انسان کے لیے خداوند ِ عالم کا ایک تعارف ہے، گرہن خاموش زبان میں خدا کی حکیمانہ تخلیق کا اعلان کررہا ہے۔
ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادہ ابراہیم مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ڈیڑھ سال کی عمر میں شوال 10 ہجری 632)ء ( میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اتفاق سے اسی دن سور ج گرہن پڑا۔ قدیم توہماتی رواج کے مطابق، مدینہ کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ سورج گرہن پیغمبر کے بیٹے کی موت کی وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت ناپسند ہوئی۔ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کی۔ آپ نے فرمایا:إن الشمس والقمر لا یخسفان لموت أحد ولا لحیاتہ، ولکنہما آیتان من آیات اللہ، فإذا رأیتموہا فصلوا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1042)۔یعنی سورج اورچاند میں کسی انسان کی موت سے گرہن نہیں لگتا، نہ ہی کسی کی زندگی سے۔ وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہے۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو۔
’’چاند گرہن اور سورج گرہن خدا کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں‘‘— یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ دراصل اس معاملے کے اصل معنوی پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن جس طرح ہوتا ہے، اس پر غور کیا جائے تو وہ آدمی کے لئے خدا کی دریافت کا ذریعہ بن جائے گا۔ وہ سادہ طورپر فلکیاتی نشانی کے بجائے، زیادہ گہرے معنوں میں خدائی نشانی ثابت ہوگا۔
چاند گرہن یا سورج گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہے، اس کے پیچھے خالقِ کائنات کی معجزانہ صنّاعی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، گرہن اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ تین خلائی اجسام، زمین، چاند، سورج،گردش کرتے ہوئے ایک سیدھ میں آجائیں۔ تینوں کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔ چاند کو اگر سرسوں کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اس کے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر ہوگی اور سورج ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔
یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والا ان کو یکساں سائز میں دیکھنے لگے۔ جب تینوں کے درمیان چاند ہو تو سورج گرہن واقع ہوگا۔ اور جب ان کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن واقع ہوگا۔ یہ وسیع خلا میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ کا معاملہ ہے:
It is a uniquely well-calculated positioning of three moving bodies, highly unequal in size, in the vast space.
گرہن (eclipse)اُس وقت واقع ہوتا ہے جب کہ وسیع خلا کے تین اَجرام، زمین، چاند، سورج، انتہائی متناسب دوری کے ساتھ بالکل ایک سیدھ میں آجائیں۔ یہ ایک انتہائی حیرت ناک ظاہرہ ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انسائیکلوپیڈیا بریٹانکا کے مقالہ نگار نے لکھا ہے — ایک انتہائی غیر معمولی توافق کی بنا پر سورج اور چاند کا سائز اور دوری ایسے ہو جاتے ہیں کہ زمین سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے گویا کہ دونوں بالکل برابر ہوں:
By a remarkable coincidence, the sizes and distances of the Sun and Moon are such that they appear as very nearly the same angular size as the earth. (EPB 6/189)
گرہن کے اِس عجیب واقعے کو مقالہ نگار نے محض اتفاق (coincidence) قرار دیا ہے۔ مگر یہ بالکل غیر منطقی بات ہے۔ اِس قسم کا نادر اتفاق اولاً تو ممکن نہیںاور بالفرض اگر ایسا ہوجائے تو وہ بمشکل ایک بار ہوسکتا ہے، لیکن فلکیاتی تاریخ بتاتی ہے کہ گرہن کا یہ واقعہ لاکھوں برس سے اِسی طرح پابندی (regularity)کے ساتھ ہر سال پیش آرہا ہے۔ اِس قسم کی کامل باضابطگی ہر گز اتفاقاً نہیں ہوسکتی۔ یقینی طورپر وہ ایک قادرِ مطلق ہستی کی مسلسل کار فرمائی کے باعث ہی ممکن ہے۔ اتفاق کا لفظ اِس حیرت ناک فلکیاتی ظاہرے کی توجیہہ کے لیے آخری حد تک ناکافی ہے۔
گرہن، خلا میں پیش آنے والے اُن بے شمار معجزاتی واقعات میں سے ایک ہے جن کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (36:38)۔ یعنی یہ عزیز اور علیم خدا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے:
That is the disposition of the Almighty, the All Knowing.
وسیع خلا میں بے شمار اجزا ہیں۔ یہ تمام اجزا مکمل طورپر خداوند ِ عالم کے کنٹرول میں ہیں۔ سیاروں اور ستاروں کی گردش انتہائی حد تک خدا کے مقرر ضابطہ کی پابندی میں ہوتی ہے۔ شمسی نظام اِسی کا ایک نمونہ ہے جس کے اندر ہماری زمین واقع ہے۔ یہ نظام اپنی خاموش زبان میں اعلان کررہا ہے کہ اِس کائنات کا ایک قادرِ مطلق خدا ہے جو وسیع خلا میں اُن پر کامل کنٹرول کیے ہوئے ہے۔
اِنھیں معجزاتی واقعات میں سے ایک گرہن کا واقعہ ہے۔ سورج گرہن اور چاند گرہن ہمارے قریبی مشاہدے کی چیزیں ہیں۔ لوگ اُس کو عجوبہ کے طورپر یا زیادہ سے زیادہ ایک فلکیاتی کورس کے طورپر دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے۔ اِسی لیے اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب گرہن واقع ہو تو لوگ خدا کی عبادت کریں۔ اِس عبادت کو صلاۃِ کُسوف اور صلاۃِ خُسوف کہاجاتا ہے۔ گرہن کے وقت خدا کی عبادت کرنا اِس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک خدائی ظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سائنس، سادہ طور پر ، عالم حقائق کے مطالعہ کا نام ہے۔ قرآن میں یہی صفت اہل ایمان کی بتائی گئی ہے۔ کہ وہ زمین و آسمان کی بناوٹ پر غور کرتے ہیں (آل عمران191:)۔ اس اعتبار سے ایک سائنس داں وہی کام کرتا ہے جو ایک مومن کرتا ہے۔ تا ہم دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ سائنس داں کا عمل صرف تحقیق کے لئے ہوتا ہے اور مومن کا عمل عبرت کے لئے۔ سائنس داں کے پیش نظر علم برا ئے علم ہو تا ہے اور مومن کے پیش نظر علم برا ئے مقصد ۔ سائنس داں اضافۂ علم پر مطمئن ہو تا ہے اور مومن اضافۂ ایمان پر۔ (اسلام پندرھویں صدی میں)
واپس اوپر جائیں

کشتی ٔ نوح کی دریافت

حضرت نوح ابتدائی دور کے پیغمبر ہیں۔ وہ عراق کے علاقہ میسو پوٹامیہ (Mesopotamia) میں مبعوث ہوئے تھے۔ لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کے باوجود بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے، یہاں تک کہ ایک عظیم طوفان کے ذریعے پوری قوم کو تباہ کردیاگیا۔ اُس وقت اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح نے اِس کشتی میں اُس وقت کے تمام اہلِ ایمان کو بٹھایا۔ طوفان میں بہتی ہوئی یہ کشتی آخر کار مشرقی ترکی کے پہاڑ ارارات (Ararat) پر ٹھہر گئی۔ اس کے بعد اس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ کشتی سے نکل کر مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔
یہ واقعہ پانچ ہزار سال پہلے کا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا تھا کہ یہ کشتی محفوظ رہے گی اور بعد کے زمانے میں دریافت ہو کر لوگوں کے لیے نشانی (sign) بن جائے گی۔ سورہ القمر میں حضرت نوح کے تذکرہ کے بعد یہ آیت آئی ہے:وَلَقَدْ تَرَکْنَاہَا آیَةً فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ(54:15)۔ یعنی ہم نے اس ( کشتی ) کو نشانی کے لیے چھوڑ دیا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔ یہی بات سورہ العنکبوت میں اِن الفاظ میں آئی ہے:وَجَعَلْنَاہَا آیَةً لِلْعَالَمِینَ (29:15) ۔یعنی پھر ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
انیسویں صدی کے آخر میں جب ہوائی پرواز کا زمانہ آیا تو کچھ لوگوں نے ارارات پہاڑ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے برف کے ذخائر (glacier)کے اندر چھپی ہوئی ایک کشتی کے آثار دیکھے۔ لیکن بار بار کوشش کے باوجود اِس معاملے میں کچھ زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں۔ اکیسویں صدی میں جب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میںبرف کے ذخائر (glacier) پگھلنے لگے تو ہوائی پرواز کے دوران معلوم ہوا کہ کوہِ ارارات پر ایک پوری کشتی موجود ہے۔ اِس کے بعد وہاں چین اور ترکی کے مسیحیوں کا ایک گروپ پہنچا۔ انھوں نے جدید آلات کی مدد سے کاربن ڈیٹنگ (carbon dating) کے ذریعے مذکورہ کشتی کی عمر معلوم کی۔ اب معلوم ہوا کہ یہ کشتی عین اُسی زمانے کی ہے، جب کہ یہاں طوفانِ نوح آیا۔ اِس دریافت کی رپورٹ میڈیا میں آچکی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (28 اپریل2010)میں اِس کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوئی ہے:
HONG KONG: A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah's Ark — four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recovered wooden specimens from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the ark is said to have been afloat. “It’s not 100% that it is Noah’s Ark but we think it is 99.9% that this is it,” Yeung Wing-cheung, a Hong Kong documentary filmmaker and member of the 15-strong team from Noah’s Ark Ministries International said. The structure had several compartments, some with wooden beams, which were believed to house animals, he said. The group of archaeologists ruled out an established human settlement on the grounds that one had never been found above 3,500 metres in the vicinity.
قربِ قیامت کی نشانیوں میں غالباً یہ سب سے زیادہ واضح نشانی ہے۔ انسان ہزاروں سال سے لکڑی کی کشتی بنا رہا ہے۔ قدیم زمانے کی کشتیوں میں سے اب کوئی بھی کشتی دنیا میں محفوظ نہیں، کیوں کہ لکڑی کچھ دنوں کے بعد فطری طورپر بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ کشتیوں کی تاریخ میں حضرت نوح کی کشتی ایک exception ہے۔ اِس استثنا کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو تھا۔ صرف اللہ کو معلوم تھا کہ یہ کشتی طوفان میں بہتی ہوئی پہاڑ کے اوپر پہنچ جائے گی، پھر فطری عمل کے تحت وہ گلیشیر کے نیچے دب جائے گی اور اِس طرح وہ محفوظ رہے گی۔ یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ بیسویں صدی کے آخر میں گلوبل وارمنگ کا معاملہ پیش آئے گا اور پہاڑ کے اوپر برف پگھلنا شروع ہوجائے گی، یہاں تک کہ کشتیٔ نوح صاف دکھائی دینے لگے گی۔ اکیسویں صدی میں کشتیٔ نوح کا سامنے آجانا اِس بات کی علامت ہے کہ جس طرح پانچ ہزار سال پہلے ایک بڑے طوفان کے ذریعے اُس وقت کی آبادی ختم ہوگئی تھی، اسی طرح اب ایک اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے جس میں تمام انسان ختم ہوجائیں گے، اور صرف وہ لوگ بچیں گے جن کو اللہ اپنی جنت میںآباد کرنے کے لیے منتخب کرے۔
واپس اوپر جائیں

نیک وبد کی تمیز

امریکا میں ایک انٹرنیشنل سائنسی ادارہ قائم ہے۔ اِس ادارے کا مقصد بچوں کے معاملات کی سائنسی تحقیق کرنا ہے۔ اس ادارے کا نام یہ ہے:
Infant Cognition Center, Yale University, Connecticut.
اِس ادارے کے تحت حال میں ایک ریسرچ ہوئی ہے۔ یہ ریسرچ نفسیات کے پروفیسر پال بلوم (Paul Bloom) کی رہنمائی میں ہوئی ہے۔ اِس ریسرچ کے نتائج اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ اِس کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اگلے صفحہ پر اِس ریسرچ کا وہ خلاصہ شائع کیا جارہا ہے جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (11 مئی 2010 ) میں چھپا ہے۔
قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آرہا تھا کہ انسان کی فطرت میں نیک اور بدکی تمیز موجود ہے۔یہ بات قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان ہوئی ہے:فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا(91:8)۔ موجودہ زمانے میں مغرب میں کچھ مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اِس کے برعکس نظریہ پیش کیا۔ مثال کے طورپر سگمنڈ فرائڈ (وفات1939 )، وغیرہ۔ اِن لوگوں نے اپنے خود ساختہ نفسیاتی مطالعہ کے حوالے سے بتایا کہ انسان کی فطرت پیدائشی طورپر ایک سادہ پلیٹ کی مانند ہوتی ہے۔ اس کے اندر کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا سمجھنے کا کوئی شعور موجود نہیں ہوتا۔ اِس قسم کاشعور تمام تر سماج کے اثر (social conditioning) سے پیدا ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں یہی نظریہ تعلیم یافتہ طبقے پر چھایا رہا۔
مگر اکیسویں صدی میں جو نفسیاتی تحقیقات ہوئی ہیں،انھوں نے اِس نظریہ کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے۔ اِس تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ کیوںکہ جب وہ کوئی خلافِ عدل کام کرتا ہے تو وہ اپنے شعورِ فطرت سے انحراف کرکے ایسا کرتا ہے۔ انسان کا اخلاقی احساس اس کی داخلی فطرت پر مبنی ہے، وہ محض خارجی اثرات کا نتیجہ نہیں— اِس طرح اِس معاملے میں مذہبی نقطۂ نظر دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا ہے۔
Infants Can Make Value Judgments, Finds American Research: Contrary to the Freudian theory that humans start their lives with a moral “blank slate”, children may be born with the ability to tell good from bad, according to a new study. Newly born babies apparently start making moral judgments by the time they are six months old, claims a team of psychologists at the infant cognition centre at Yale University in Connecticut. The scientists used the ability to tell helpful from unhelpful behaviour as an indication of moral judgment. Infants can even act as judge and jury in the nursery. Researchers who asked one-year-old babies to take away treats from a “naughty” puppet found they were sometimes also leaning over and smacking the figure on the head. As part of the study, they conducted multiple tests on infants, less than a year old. Firstly, an animated film of simple geometric shapes was screened for the kids to watch. It showed a red ball, with eyes, trying to climb a hill. A yellow square helped, pushing it up, while a green triangle forced it back down. Later, the children were asked to “choose” between the “good guy” square, and the “bad guy” triangle. In 80% of cases the infants chose the square over the triangle. In a second study, the children were shown a toy dog trying to open a box. One teddy bear helped him, while another sat on it to stop him getting inside. The observers found that most babies opted for the friendly teddy bear. To further confirm that the babies were responding to niceness and naughtiness the scientists devised another test. A toy cat played with a ball while a cuddly rabbit puppet stood on either side. When the cat lost the ball, the rabbit on the right side returned it to him, while the rabbit on the left side picked it up and ran away with it. The children were asked to handle anyone one puppet. Most picked the naughty rabbit and smacked it on the head. Paul Bloom, professor of psychology who led the study, said the research counters theories of psychologists such as Sigmund Freud who believed humans began life as “amoral animals” and William James who described a baby’s mental life as “one great, blooming, buzzing confusion”. “There is a growing body of scientific evidence that supports the idea that perhaps some sense of good and evil is bred in the bone,” the Times quoted Bloom as saying. Kiley Hamlin, author of the team’s Infant Morality report, said: “We spend a lot of time worrying about teaching the difference between good guys and bad guys in the world but this might be something that infants come to the world with.” Peter Willatts, a lecturer in psychology at Dundee University, said: “You cannot get inside the mind of the baby. You cannot ask them. You have to go on what most attracts their attention.” “We now know that in the first six months babies learn things much quicker than we thought possible. What they are born with and what they learn is difficult to divide,” he added. (The Times of India, New Delhi, Page 17, May 11, 2010)
واپس اوپر جائیں

دورِ شرک، دورِ الحاد

مذہبی نقطہ نظر سے تاریخ کے دو دور ہیں — دورِ شرک، دورِ الحاد۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے ہزاروں سال تک دنیا میں شرک (polytheism) کا غلبہ تھا۔ موجودہ زمانہ عمومی تقسیم کے اعتبار سے، الحاد (atheism) کا زمانہ ہے۔ تاہم الحاد انکارِ مذہب کا نظریہ ہے، جب کہ سیکولرزم مذہب کے بارے میں عملاً ناطرف داری کا نظریہ۔
دورِ شرک اوردورِ الحاد کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور وہی چیز ہے جس کو قرآن کی درج ذیل آیت میں ’خَرص‘ کہاگیا ہے : وَقَالُوْا لَوْ شَاۗءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰہُمْ ۭ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ۤ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ (43:20) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اگر رحمان چاہتا تو ہم اُن کی عبادت نہ کرتے۔ اُن کو اِس کا کوئی علم نہیں، وہ محض اٹکل سے بات کررہے ہیں۔
’خرص‘ کا لفظی مطلب ہے اٹکل سے بات کرنا۔ اِس سے مراد دراصل چیزوں کی قیاسی تعبیر (speculative interpretation) ہے۔ قدیم زمانے میں مشرکین نے یہی غلطی کی تھی۔ انھوں نے یہ کیا کہ فطرت کا جو ظاہرہ اُن کو بڑا (great) نظر آیا، اس کو انھوں نے الٰہ (god) کادرجہ دے دیا۔ یہی چیز ہے جس کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ہٰذَا رَبِّیْ ہٰذَآ اَکْبَرُ(6:78)۔یعنی یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔
موجودہ زمانے میں سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُس نے اِس قدیم متھ (myth) کو توڑ دیا۔ سائنس نے اپنے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ جن چیزوں کو انسان نے خدا سمجھ لیا تھا، اُن کے اندر کوئی خدائیت (divinity)نہیں ہے۔ تمام چیزیں صرف فطرت (nature) کے اجزا ہیں۔ بہ الفاظ دیگر، کائنات کی تمام چیزیں صرف مخلوق ہیں، وہ کسی بھی درجے میں خالق نہیں۔ مشرکانہ کلچر کے نظریاتی خاتمے کا آخری دن 20 جولائی 1969 تھا، جب کہ امریکی ایسٹروناٹ نیل آرم اسٹرانگ (Neil Armstrong)چار روزہ خلائی سفر طے کرکے چاند تک پہنچا، اور چاند کی سطح پر اس نے اپنا قدم رکھ دیا۔
الحادکا دور
شرک کا مطلب ہے— کسی غیر خدا کو خدا کا شریک (partner) قرار دے کر اس کی تعظیم یا عبادت کرنا۔ موجودہ زمانے میں جب شرک کا دور ختم ہوا تو اس کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں توحید کا دور آجائے، لیکن اُس وقت اہلِ مغرب دنیا کے فکری قائد بنے ہوئے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، قرونِ وسطی (middle ages) کے زمانے میں مغرب کے اہلِ علم اور چرچ کے درمیان شدید ٹکراؤ ہوا۔ اِس ٹکراؤ کی تفصیل جان ولیم ڈریپر (J. W. Draper)کی درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
History of the Conflict Between Religion and Science (1874)
قرون وسطی کے بعد یورپ میں انیسویں صدی میں جدید الحادی فکر کادور آیا۔ یہ دور کسی علمی تحقیق کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ تمام تر رد عمل (reaction) کے نتیجے میں پیش آیا۔ اِس زمانے میں علمی تحقیق کا معیار یہ قرار پایا کہ وہ تمام تر سیکولرانداز میں ہو، یعنی خدا کو حذف کرکے واقعات کی توجیہہ کرنا۔ اِس طرزِ فکر کے نتیجے میں وہ غیر مذہبی فلسفہ پیدا ہوا جس کو الحاد (atheism) کہاجاتا ہے۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal) ہے۔ قدیم مشرکانہ دور میں یہ توجیہہ قیاسی بنیاد پر کی جاتی تھی۔ موجودہ ملحدانہ دور میں یہ توجیہہ علمی تحقیق کے نام پر کی جانے لگی۔ اِس نئے دور میں مغربی دنیا میں بہت سے مفکر پیدا ہوئے جو خدا کو حذف کرکے حیات اور کائنات کی توجیہہ کرتے تھے۔
اِس طریقِ تحقیق کے نتیجے میں ایک نیا دور پیدا ہوا۔ مزید یہ کہ اِسی دور میں پرنٹنگ پریس بھی وجود میں آیا۔ پہلے کتابیں محدود طورپر ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں، اب وہ چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں۔ اِس طرح یہ ہوا کہ جدید الحاد مطبوعہ کتابوں میں منتقل ہو کر تمام دنیا کے فکر پر چھا گیا۔جدید ملحدانہ دور میں جو مفکرین پیدا ہوئے، اور ان کے ذریعے جو غیر مذہبی طرز فکر وجود میں آیا، اس کے پیچھے بہت سے ذہن کارفرما تھے۔ تاہم علامتی طورپر چار افراد کو اِس معاملے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اِن چار افراد نے انسانی تاریخ کو ایک نیا رخ یا الحادی رخ دیا۔ اُن کے نام یہ ہیں— آئزاک نیوٹن، چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ،کارل مارکس:
1. Isaac Newton: from divine interpretation to mechanical interpretation
2. Charles Darwin: from Special Creation to Natural Selection.
3. Sigmund Freud: from harnessing desires to following desires.
4. Karl Marx: from duty-conscious society to right-conscious society.
1- بر ٹش سائنس داں آئزاک نیوٹن (وفات1727) اصلاً صرف ایک سائنس داں تھا۔ اس کا موضوع تھا مادی دنیا میں حرکت (motion) کی توجیہہ کرنا۔ اس نے دریافت کیا کہ مادی دنیا میں حرکت کا نظام میکانکل قوانین (mechanical laws) کے تحت ہوتا ہے۔ مثلاً شمسی نظام میں سیاروں کی گردش کا قانون۔نیوٹن کی دریافت کا کوئی تعلق مذہبی عقائد سے نہ تھا، لیکن ملحد مفکرین نے اِس دریافت کو الحاد کے حق میں استعمال کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر واقعات فطری اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ فوق الفطری سبب کے تحت نہیں ہوسکتے:
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
یہ استدلال بلا شبہ ایک غیر منطقی استدلال تھا، کیوں کہ نیوٹن کی تشریح جس چیز کو بتارہی تھی، وہ صرف ظاہری سبب تھا۔ اِس کے بعد بھی یہ سوال تھاکہ اسباب کے پیچھے مسبِّب (cause of the causes) کون ہے۔ اِس معاملے میں ملحدین کا استدلال تمام تر ایک مغالطے پر مبنی تھا، وہ کوئی سائنسی استدلال نہ تھا۔ لیکن ملحد مفکرین کی یہ توجیہہ وقت کے ذوق کے مطابق تھی، اِس لیے وہ عمومی طورپر پھیل گئی۔
2- چارلس ڈارون (وفات 1882) کا ارتقائی نظریہ بنیادی طورپر انتخابِ طبیعی (natural selection) کے اصول پر مبنی ہے۔ ڈارون نے اور اس کے ساتھیوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ ارتقا (evolution) کا یہ نظریہ ایک سائنسی نظریہ ہے۔ مگر علمی تعریف (definition) کے مطابق، ارتقا کا نظریہ ہرگز سائنسی نظریہ (scientific theory) نہ تھا، وہ صرف ایک قیاسی نظریہ (speculative theory)کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر وقت کے عمومی ذوق کی بنا پر حیاتیاتی ارتقا کے اِس نظریے کو عام مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ کے لیے اب خالق کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، خالق کے وجود کو مانے بغیر تمام حیاتیاتی مظاہر کی توجیہ ممکن ہے۔
مگر یہ صرف ایک مغالطہ تھا۔ سائنس کی مزید دریافتوں نے یہ ثابت کردیا کہ ارتقا کا یہ نظریہ علمی اعتبار سے بالکل بے بنیاد ہے۔ سائنس کی جدید دریافت بتاتی ہے کہ فطرت میں کامل درجے کی ذہین ڈزائن (intelligent design) ہے۔ اِس دریافت نے علمی طورپر نظریہ ارتقا کا خاتمہ کردیا ہے۔ کیوںکہ ذہین ڈزائن ایک ذہین ڈزائنر (intelligent designer) کی موجودگی کو ثابت کرتی ہے، وہ بے شعور قسم کے انتخابِ طبیعی کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔
3- سگمنڈ فرائڈ (وفات1939) کا نظریہ یہ تھا کہ انسان کی ذہنی ترقی اِس طرح ممکن ہے کہ اس کو آزاد چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی خواہشوں کو بے روک ٹوک پورا کرسکے۔ فرائڈ کے اِس نظریے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہبی تصور کے مطابق، حرام وحلال کی پابندیاں ختم ہوگئیں۔ انسان آزاد ہوگیا کہ وہ خود اپنی خواہش کے تحت جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔
لیکن بعد کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ فرائڈ کا یہ نظریہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ چناںچہ وہ انسان کی ذہنی ترقی میں مانع ہے، نہ کہ مدد گار۔نفسیات کا جدید مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کی ذہنی ترقی چیلنج کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ بے قید آزادی کے ذریعے۔ مذہب کی عائد کردہ اخلاقی پابندیاں ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِس چیلنج کے ذریعے انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا ہوتی ہے۔ اِس طرح انسان اپنی توانائی کے ضیاع سے بچتے ہوئے ذہنی ترقی کے راستے پر سفر کرتا رہتا ہے۔
4- کارل مارکس (وفات1883) نے زندگی کا جو فلسفہ دیا، وہ اپنی عملی تدبیر کے اعتبار سے یہ تھا کہ اقتصادی ذرائع کو انفرادی کنٹرول سے نکال کر سماجی کنٹرول میں دے دیا جائے۔ مارکس کے نزدیک انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی واحد راستہ تھا۔ مگر عملی تجربے کے لحاظ سے اِس فلسفے کا مطلب یہ تھا کہ تمام اقتصادی ذرائع کو اسٹیٹ کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اِس نظریے کا مقصد بظاہر ایک غیرطبقاتی سماج (classless society)پیدا کرنا تھا، مگر عملاً اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو شدید قسم کے متحارب طبقے پیدا ہوگئے۔
اِس نظریے سے دو بڑی برائیاں پیدا ہوئیں— ایک، یہ کہ مسابقت (competition) کا ختم ہوجانا، جو کہ تمام ترقیوں کے لیے فطری محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری برائی جو اشتراکی نظریے کےتحت پیدا ہوئی، وہ یہ کہ لوگ عمومی طورپر رائٹ کانشس (right-conscious) بن گئے، جب کہ کسی سوسائٹی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کے افراد ڈیوٹی کانشس (duty-conscious) ہوں۔ یہاں پہنچ کر طبقاتی کشمکش نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ کیوں کہ زندگی میں ڈیوٹی کا تعین ہوسکتا ہے، لیکن رائٹ کا کوئی تعین نہیں۔
خلاصہ کلام
قدیم دورِ شرک کا بگاڑ یہ تھا کہ وہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو صحیح بنیاد پر قائم کرنے میں مانع بن گیا۔ انسان کو یہ کرنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کو اور محبت اور خوف کے جذبات کو مکمل طورپر خدا سے وابستہ کرے۔ اِسی کا نام توحید ہے اور اِسی توحید سے انسان کے اندر تمام اعلی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن مشرکانہ کلچر نے خدا کے شرکا (partners) قرار دے کر انسان کو اس کے مرکزِ اصلی سے ہٹا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اپنے مطلوب ارتقا سے محروم ہو کر رہ گیا۔
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک مرکز ِ وابستگی چاہتا ہے۔ انسان کی اِس فطری طلب کا مرجع صرف ایک ہے، اور وہ اس کا خالق ہے۔ بندے کا خالق سے تعلق قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے بجلی کے بلب کا پاور ہاؤس سے تعلق قائم ہونا۔ شرک کی برائی یہ تھی کہ اس نے انسان کی اِس طلب کے لیے اس کو ایک غیر واقعی بدل (false substitute) دے دیا۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ انسان کو اس کی فطری طلب کا مرکز نہیں ملا اور نتیجةً انسان اپنی شخصیت کے اُس ارتقا سے محروم ہوگیاجو اس کے لیے پیدائشی طور پر مقدر تھا۔
جدید الحاد کے دور میں دوبارہ انسان ایک اور اعتبار سے اِسی محرومی کا شکار ہوگیا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو علمِ قلیل دیاگیا ہے (الاسراء85:)۔ انسان کے لیے آزادی بہت اچھی چیز ہے، لیکن انسان اپنی فطری ساخت کے اعتبار سے کامل آزادی کا تحمل نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی اِس محدودیت (limitation) کو جانے اور مقیّد آزادی (guided freedom) پر راضی ہوجائے۔ جدید الحاد نے آزادی کو خیر مطلق (summum bonum)قرار دے کر انسان کو اس کی فطرت کے راستے سے ہٹا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر ہر قسم کی ترقیوں کے باوجود انسان اُس اہم ترین چیز سے محروم ہوگیا جس کو ذہنی سکون (peace of mind) کہاجاتا ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی: مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔
واپس اوپر جائیں

دورِ مواصلات

قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ایک آیت آئی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (17:70)۔ یعنی ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی، اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا ۔اس دنیا میں موجود تمام حیوان اپنے پیروں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں، چڑیا کا سفر اپنے پرکے ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے کہ وہ خارجی سواری کے ذریعہ اپنا سفر کرسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جدید مواصلات (modern communication) کی ایجاد نے سواری (transportation) کے تصور کو بہت بڑھادیا ہے۔ آج کے انسان کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ جسمانی حمل ونقل (physical transportation)سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرے اور اِسی کے ساتھ افکار کے حمل ونقل (transportation of ideas)کو بھی نہایت سرعتِ رفتار سے انجام دے سکے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں براہِ راست طورپر صرف حیوانی مواصلات کا ذکر ہے، مگر بالواسطہ طورپر اس میں ہر قسم کے مواصلات بشمول مواصلات بذریعہ ٹکنالوجی کا اشارہ موجود ہے۔ آدمی اگر اس آیت کو اس کے توسیعی مفہوم (extended meaning) کے ساتھ پڑھے تو یہ آیت اس کے لیے کائناتی معرفت کا ذریعہ بن جائے گی۔ اِس آیت میں وہ اللہ کی کائناتی نعمت کو دریافت کرے گا۔ یہ ایک آیت اس کے لیے بلین ٹریلین سے بھی زیادہ معانی کا خزانہ بن جائے گی۔
قرآن معروف معنوں میں کوئی معلوماتی کتاب نہیں۔ لیکن قرآن کے اندر وہ تمام معلومات موجود ہیں، جن کا تعلق معرفت سے ہے۔ یہ معلومات زیادہ تر اشارات کی صورت میں ہیں۔ ان آیتوں پر غور کرکے ان کے اندر چھپے ہوئے معانی کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ تدبر اور تفکر ہے جس سے معرفت میں اضافہ ہوتاہے۔ یہی وہ چیزہے جو آدمی کے ایمان کو یقین کے درجے تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تدبر کو نصیحت (ص29:)کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

پوشیدہ جنت

قرآن میں ہے کہ جو لوگ ایمان والی زندگی گزاریں، ان کے لیے آخرت میں جنت کا انعام ہے۔ اس سلسلے کی ایک آیت یہ ہے: فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ(32:17)۔ تو کسی کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلہ میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ اس آیت میںاُخفی لہم کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس کا لفظی مطلب ہےان کے لیے چھپا کر رکھنا (kept hidden for them)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت مستقبل میں بنائی جانے والی دنیا نہیں ہے، بلکہ آج ہی بنائی ہوئی موجود ہے۔ جس طرح ہماری زمین ایک بالفعل موجود دنیا ہے، اسی طرح جنت ایک ایسی دنیا ہے جو بالفعل موجود ہے۔
سیارۂ ارض کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ شمسی نظام (solar system) کا ایک سیارہ ہے، جو ہمارے لیے بذریعہ دوربین (telescope) قابلِ مشاہدہ ہے۔ لیکن جنت اس طرح ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں۔ کسی بھی دوربین کے ذریعہ ہم جنت کو دیکھ نہیں سکتے۔ البتہ سائنسی دریافت نے ہمارے لیے ایک قیاس کا موقع فراہم کیا ہے۔ سائنسی دریافت یہ کہتی ہے کہ اسپیس کا بڑا حصہ ڈارک میٹر (dark matter) کی صورت میں ہے۔ یعنی وہ اسپیس میں موجود ہے، لیکن ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے۔ اب جنت پر یقین کرنے کے لیے یہ قیاس قائم کیا جاسکتا ہے کہ جنت کی دنیا غالباً ڈارک میٹر کے درمیان اسپیس میں کسی مقام پر چھپی ہوئی موجود ہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے کی شکل میں پیدا کی گئی ہے (الذاریات 49:)۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہماری زمین کا بھی ایک جوڑا (pair) ہے۔ اسی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ دوسری دنیا موجودہ زمین کی تکمیل ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی بھی انسان کی آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں۔ یہاں کسی بھی انسان کو اس کی خواہش کے اعتبار سے fufilment نہیں ملتا۔ یہ صورتِ حال اس بات کا قرینہ ہے کہ یہی دوسری دنیا شاید وہ دنیا ہے جس کو ابدی جنت کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

زوج یا ہیبیٹاٹ

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آٗئی ہے: وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (51:49)۔یعنی اور ہم نے ہر چیز سے جوڑے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو :
We have created everything in pairs so that perhaps you may take heed.
قرآن کی اس آیت کا خطاب ان لوگوں سے ہے، جو تذکُّر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی غور وفکر کرنا اور نصیحت لینا۔ اس سے واضح ہے کہ اس آیت کا خطاب انسان سے ہے۔ وہ انسان سے کہہ رہی ہے کہ تم تخلیق پر غور کرو، اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں زوج سے مراد وہی چیز ہے جس کو ہیبیٹاٹ (habitat) کہا جاتا ہے۔ اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں، سب کے لیے یہاں ان کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔ مثلاً گردش کرتے ہوئے ستاروں کے لیے وسیع خلا (vast space)، نباتات کے لیے موافق زمین (soil)، حیوانات کے لیے جنگل ، مچھلی کے لیے پانی، وغیرہ۔ اس طرح کائنات میںموجود ہر مخلوق کے لیے اس کا موافق ہیبیٹاٹ موجود ہے۔
مگر یہاں صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو ، اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ انسان کو ایسی دنیا ملی ہے، جہاں وہ زندہ رہ سکے، لیکن انسان کو ایسی دنیا حاصل نہیں جہاں اس کے لیے ہر اعتبار سے فل فِل مینٹ (fulfillment) کا سامان موجود ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اس طرح رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپتا رہتا ہے۔ اس کو کبھی اپنے وجود کا زوج (habitat) حاصل نہیں ہوتا۔ انسان اس فرق پر غور کرے تو وہ جنت کو دریافت کرے گا، اور اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اس طرح کرے گا جو اس کو جنت کی منزل تک پہنچانے والا ہو۔ جنت کی دریافت تخلیق کی حکمت کی دریافت ہے۔یہی مطلب ہے فَفِرُّوا إِلَى اللَّہِ کا(یعنی پس دوڑو اللہ کی طرف)۔الذاریات 50:
واپس اوپر جائیں

کائنات کی معنویت

سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے۔ فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو ہم کائنات کہتے ہیں۔ سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے۔ کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی۔مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے۔ اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کا ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہ بن جاتاہے۔
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات ایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان کی ضرورتوں کے عین مطابق ہے۔ اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان اِس مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں۔ اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزاء آپس میں بے حد مربوط ہیں ،اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی ضرورکوئی توجیہہ ہونی چاہیے۔
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں۔ سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے، لیکن خالق (Creator) تخلیق سے جدا نہ تھا، اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا۔ سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کا اظہار بن گئیں جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘  (signs of God) کہاگیا ہے۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کی دریافت خالق کی معنویت کی دریافت کے ہم معنی ہے۔
واپس اوپر جائیں

زمین کی حفاظت

موجودہ زمانے میں جو آلات دریافت ہوئےہیں، ان کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ خلائی واقعات کا نہایت صحت کے ساتھ مشاہدہ کیا جاسکے۔ اُنھیں میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ 23 جولائی 2012 کو سورج کی سطح پر ایک مقناطیسی طوفان آیا تھا۔ یہ طوفان زمین کے اوپر بہت بڑی تباہی (havoc)برپا کرسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ کیوں کہ یہ طوفان سورج کی ایک سمت میں آیا تھا، جب کہ زمین اپنی گردش کے اعتبار سے اُس وقت سورج کے دوسری سمت میں تھی۔اس طرح کے واقعات ہماری دنیا میں روزانہ پیش آرہے ہیں۔ یہ واقعات قرآن کی اُس آیت کی تفسیر ہیں جس میں کہاگیا ہے: قُلْ مَنْ یَّـکْلَـؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَ(21:42)۔
کائنات میں انسان کی حفاظت کا یہ انتظام بتاتا ہے کہ اللہ کتنے زیادہ بڑے پیمانے پر انسان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کررہاہے۔ انسان اپنی غفلت کی بنا پر اِس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے۔ اگر انسان اِس حقیقت کو جانے تو بلا شبہ اس کی زندگی میں ایک ربانی انقلاب آجائے۔
Massive solar storm almost hit Earth in 2012
London: A massive magnetic storm with a speed of 3,000 km per second enough to circle Earth five times in one minute and the likes of which has not been seen in the past 150 years almost hit the world in 2012. But as it tore through Earth’s orbit, releasing energy equivalent to that of about a billion hydrogen bombs, good fortune prevailed on the Blue Planet, which was placed on the other side of the sun at the time. Had the eruption come nine days earlier, it would have hit Earth, potentially destroying our electrical grid, disabling satellites and GPS and disrupting our increasingly electronic lives, wreaking havoc and causing fireworks. Experts confirmed on Wednesday that a fierce solar eruption known as coronal mass ejections blasted away from the sun and sent a pulse of magnetized plasma barrelling into space and through Earth’s orbit. (The Times of India, New Delhi, March 20, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

کائنات کی وسعت

جب سے خلا کے دور بینی مشاہدے کا دور آیا ہے، نئی کہکشاؤں اور نئے ستاروں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ کچھ دنوں پہلےاِس قسم کا ایک خلائی انکشاف سامنے آیا ہے۔ مغربی سائنس دانوں کی ایک ٹیم فرانس کی رصد گاہ (Cote d’Azur Observatory) کے تحت خلائی مشاہدہ کررہی تھی۔ اُس ٹیم نے ایک ایسا نیا ستارہ دریافت کیا ہے، جو ہمارے سورج سے تیرہ سو گنا بڑا ہے اور زمین سے بارہ ہزار سال نور کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ سورج سے تقریباً ایک میلین گنا زیادہ روشن ہے۔
خورد بین اور دوربین جیسے آلات کی دریافت سے پہلے انسان کو دنیا کے عجائبات کے بارے میں بہت کم معلوم تھا۔ بیسویں صدی کا زمانہ معلوماتی انفجار (knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ اِس دور میں کائنات کے بارے میں بے شمار انوکھی باتیں دریافت ہوئیں جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ انسان خالق کی معرفت کو زیادہ بڑے پیمانے پر دریافت کرے۔ وہ خالق کی عظمتوں کا نیا برتر ادراک حاصل کرے۔ وہ آیات اللہ (signs of God)، آلاء اللہ (wonders of God) کے نئے پہلوؤں کو دریافت کرے۔ وہ عظمتِ خداوندی کے نئے احساس کے تحت کہہ اٹھے— الحمد للہ رب العالمین۔
ایک حدیث میں قرآن کے بارے میں آیا ہے: لا تنقضی عجائبہ (قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے)سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906۔ یہ عجائب کتاب کے عجائب نہیں، بلکہ وہ صاحب کتاب کے عجائب ہیں۔ بعد کے زمانے کی تمام کائناتی دریافتیں اِسی پیشین گوئی کی تفصیل ہیں، وہ خالق کی لا محدود عظمت کا بیان ہیں۔
اِس خلائی دریافت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نیا دریافت شدہ ستارہ اور سورج دونوں ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیا دریافت شدہ ستارہ جس طرح ایک ستارہ ہے، اُسی طرح سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ البتہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کے مقابلے میں تیرہ سو گنا زیادہ بڑاہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ نیا دریافت شدہ ستارہ سورج کی جگہ پر ہوتا اور سورج نئے ستارے کی جگہ پر، تو زمین پر اتنی زیادہ گرمی ہوتی کہ زندگی کی کوئی بھی قسم یہاں موجود نہ ہوتی، نہ پانی، نہ نباتات، نہ حیوانات، نہ انسان۔
ستاروں کی یہ پوزیشن نہایت بامعنی ہے۔ قرآن میں اِس خلائی حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ۔ وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ (56:75-76)۔ یعنی پس نہیں، میں قسم کھاتاہوں ستاروں کے مواقع کی۔ اور اگر تم جانو یہ بہت بڑی قسم ہے۔
اِس آیت میں قسم کا مطلب گواہی ہے۔ اور مواقع کا مطلب وقوع (placement) ہے، یعنی وسیع خلا میں ستاروں کو نہایت درست مقام پر رکھنا ایک عظیم شہادت ہے جو خالق کی بے پناہ قدرت اور بے پناہ حکمت کو بتاتی ہے۔ وسیع خلا میں ستاروں کا وقوع اتفاقاً نہیں ہوسکتا۔ یہ بامعنی وقوع(meaningful placement) گواہی دے رہا ہے کہ اِس کائنات کا خالق ایک عظیم ہستی ہے اور اس نے عظیم قدرت کے ذریعے یہ نظام قائم کیا ہے۔ اِس عظیم کائناتی واقعے کی اِس کے سوا کوئی اور توجیہہ ممکن نہیں۔
Found: A yellow star that is 1,300 times bigger than Sun
The largest ever yellow star, measuring 1,300 times the size of our Sun, has been discovered nearly 12,000 light-years from Earth. The star, dubbed HR 5171 A, located in the constellation Centaurus is the largest known member of the family of yellow stars to which our Sun belongs. It is also one of the 10 largest stars found so far — 50% laGrger than the famous red supergiant Betelgeuse — and about one million times brighter than the Sun. The team led by Oliver Chesneau of the Cote d’Azur Observatory in Nice, France, found that the yellow hypergiant star is much bigger, measuring 1,300 times the diameter of the Sun.
(The Times of India, New Delhi, March 14, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

تسخیرِکائنات

انسان کے لیے اللہ کی ایک نعمت وہ ہے جس کو تسخیر کہا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتیں یہ ہیں: اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ، وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (45:12-13) یعنی اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بے شک اِس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
تسخیر کا مطلب ہے کسی چیز کو بزور قابلِ استعمال یا قابلِ انتفاع بنانا۔ اللہ جو پوری کائنات کا خالق ہے، اس نے کائنات کے ہر جزء کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کا پابند بنا رکھا ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان مخلوقات کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے۔ خدائی قوانین کے ذریعے کائنات اگر اِس طرح مسخر نہ ہوتی تو انسان کے لیے اس کو استعمال کرنا ناممکن ہوجاتا۔
اِس کی ایک مثال سمندر کی ہے۔ سمندروں کی شکل میں پانی کے جو قدرتی ذخائر ہیں، وہ زمین کے تقریباً تہائی حصہ (71 %) پر پھیلے ہوئے ہیں۔ زمین ایک گول کرہ ہے جو مسلسل طور پر گردش کررہا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک زبردست قانون فطرت پانی کے ان ذخائر کو زمین پر قائم کیے ہوئے ہے۔
ایک طرف زمین کی غیر معمولی کشش زمین کے ذخائر کو اپنی طرف کھینچے ہوئے ہے، اور دوسری طرف سمندر کے اوپر ہوا کا تقریباً پانچ میل موٹا غلاف ہے جو سمندر کے اوپر دباؤ بنائے ہوئے ہے۔ اِن دوطرفہ اسباب کی بنا پر ایسا ہےکہ سمندروں کی گہرائی میں پانی مسلسل طور پر موجود ہے، ورنہ پورا ذخیرۂ آب اڑ کر فضا میں تحلیل ہوجاتا۔
یہی معاملہ سمندر میں چلنے والی کشتیوں کا ہے۔ یہاں بھی خدا کا مقرر کیا ہوا ایک قانونِ فطرت کام کررہا ہے۔ یہ ایک آبی قانون ہے جس کو آج کل کی زبان میں ہائڈرواسٹیٹکس (hydrostatics) کہاجاتا ہے جس کا ایک شعبہ بائنسی (buoyancy) ہے۔
بائنسی (buoyancy) سے مراد پانی کا یہ انوکھا قانون ہے کہ جب کوئی چیز پانی میں ڈالی جاتی ہے تو وہ پانی کے اندر جتنی جگہ گھیرتی ہے، اُسی کے بقدر وہاں اَپ ورڈ پریشر پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کشتی پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہے:
Buoyancy: The upward pressure by any fluid on a body partly or wholly immersed therein: it is equal to the weight of the fluid displaced.
تسخیر کا دوسرا واقعہ وہ ہے جس کا تعلق بالائی خلا سے ہے۔ زمین کے اوپر جو وسیع خلا ہے، وہ بہت بڑے بڑے نہایت گرم ستاروں سے بھرا ہوا ہے، اِس لیے اس کو ستاروں کی دنیا (starry universe) کہاجاتا ہے۔ یہ تمام ستارے ہماری زمین سے ایک مقرر دوری پر واقع ہیں۔ یہ مقرر دوری اگر قائم نہ رہے تو ہماری پوری زمین جل کر راکھ ہوجائے۔
زمین کی سطح سے رات کے وقت جب کھلے آسمان کو دیکھا جائے تو اوپر کی فضا میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ستارے نظر آتے ہیں۔ یہ ستارے بہت بڑے بڑے ستارے ہیں، لیکن دوری کی وجہ سے وہ چھوٹے نظر آتے ہیں۔ آنکھ سے دیکھنے میں تقریباً دس ہزار ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ستارے وہ ہیں جو ہماری قریبی کہکشاں (Milky Way) سے تعلق رکھتے ہیں۔
اِس کے علاوہ، وسیع خلا میں بے شمار بڑے بڑے ستارے ہیں جو مسلسل حرکت کررہے ہیں۔ ایک سو بلین سے زیادہ کہکشائیں (galaxies) ہیں اور ہر کہکشاں میں تقریباً ایک سو بلین ستارے پائے جاتے ہیں۔
اِس وسیع عالمِ نجوم کو انسان اپنی فطری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اللہ تعالی نے ہماری دنیا میں ایسے مادی اسباب رکھ دئے جن کو انسان دریافت کرے اور ان کو ترقی دے کر طاقت ور دوربین (telescope) بنائے۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں خلائی دور بین کو استعمال کرکے انسان بے شمار ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھتا ہے۔
سمندروں (اور حیوانات) کے معاملے میں تسخیر کا مطلب یہ تھا کہ انسان قانونِ فطرت کو جانے اور اس کی مدد سے اِن چیزوں کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرے۔ عالمِ نجوم کے معاملے میں تسخیر کا مطلب اُن کو اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وسیع عالمِ نجوم کو انسان آلات کی مدد سے دیکھے، وہ ان پر غور وفکر کرے۔ وہ غور وفکر کے ذریعے عالمِ نجوم کو اعلی معرفت کے حصول کا ذریعہ بنائے۔
سمندروں اور حیوانات کی تسخیر انسان کی خدمت کے لیے ہے۔ اور عالمِ نجوم کی تسخیر اِس لیے ہے کہ ان کے ذریعے سے آدمی خالق کی عظمت کو دریافت کرے۔وہ اُن میں غوروفکر کرکے اپنے لیے معرفتِ اعلی کا رزق حاصل کرے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میںکائناتی واقعات کو قرآنی پیغام کے حق میں بطور استدلال پیش کیا گیا ہے۔ گویا قرآن میں جو بات نظری طور پر کہی گئی ہے، کائنات اس کے حق میں واقعاتی دلیل ہے۔ اس اعتبار سے پوری سائنس قرآن کا علم کلام ہے۔ کیو نکہ سا ئنس کسی سا ئنس داں کے خود سا ختہ علم کا نام نہیں بلکہ وہ خدا کی کا ئنات میں کام کر نے والے قوانین کی تلاش کا نام ہے۔ ان قوانین کا جو حصہ بھی سا ئنس دریافت کر تی ہے وہ خدا کی کار فرمائیوں کی ایک جھلک ہو تی ہے، وہ خدا کی آیتوں میں سے ایک آیت ( نشانی) کا انسانی علم میں آنا ہو تا ہے۔ سا ئنس داں کے لئے سائنس کا علم برائے علم ہے یا زیادہ سے زیادہ علم برا ئے تعمیر دنیا۔ مگر مومن کے لئے سا ئنس ایک علمی ہتھیار ہے جس سے وہ دعوت حق کی جدو جہد میں کام لیتا ہے، جس سے وہ اپنی بات کو مدلل کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ (اسلام پندرھویں صدی میں)
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment